اگرچہ بھارت نے ہر دور میں پاکستان کے خلاف محاذ کھولا ہے اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اس پر چڑھائی کی کوشش کی ہے جس سے ہمیشہ سرحدوں پر حالات کشیدہ رہے ہیں تاہم اب دنیا کے حالات بدل رہے اور خصوصی طور پر جنوبی ایشیا میں چین کے بلیٹ اینڈ روٹ پروگرام( سی پیک) نے مستقبل کی تجارت کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اس لئے جدید دنیا میں اگر امریکہ و چین باہمی مخالفت و دشمنی کے باجود تجارتی تعلقات رکھ سکتے ہیں تو تین جنگیں لڑنے والے بھارت و پاکستان میں بھی برف پگھلنی چاہیے اور اس کے لئے دونوںممالک قیادت کو لچک پیدا کرنا ہو گی ۔یہ بات اب ملک کے اندر اور بین الاقوامی فورمز پر بھی کی جارہی ہے کہ دونوںممالک کی ترقی کے لئے پڑوسیوں کے آپس میں خوشگوار تعلقات ضروری ہیں۔ اس حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے فاصلوں کی پریشانیوں کو کم کیا ہے تجارت اور سیاحت بین ریاستی تعلقات میں محرک قوتیں ہیں جن سے فائد ہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی جرنیل نپولین بوناپارٹ کا ماننا تھا کہ کوئی بھی سرحدیں نہیں بدل سکتا اور اسے پڑوسیوں کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ حال ہی میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر سریش کمار کی جانب سے ا س خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کا حامی ہے اور تجارتی تعلقات کو معمول پر لا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ وہ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا الزام اسلام آباد پر لگاتے رہے اور اس پہلو کو تاریخ کی صحیح روح میں جانچنے کی ضرورت ہے کیونکہ کشمیر سمیت ایسے بہت سے پہلو ہیں جس کی وجہ سے دنوںممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ خراب رہتے ہیں ۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا ہے کہ مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد نے دہلی کے ساتھ تجارتی تعلقات کو معطل کر دیا ۔ جب تک امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے کوئی بھی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور کشمیر میں بدامنی خطے اور اس سے آگے کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے کیونکہ دونوں جوہری طاقتیں تصادم کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ اس لئے بھارت کو بھی خطے کے حالات کو بڑے کینوس پر دیکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہی ہے جس نے خطے میں اپنی گول پوسٹ کو جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف منتقل کیا۔ وہ ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے تیار ہے اور عوامی سفارت کاری کے مختلف شعبوں میں تعاون کو بھی بڑھانا چاہتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب کشمیر کے تنازعہ کو پورے اخلاص کے ساتھ حل کیا جائے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سارے معاملات کے رہتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اسلئے دونوں ممالک کے درمیان سیاحت، تجارت اور ٹیکنالوجی پر بھارتی ہائی کمشنر کمار کی کو شش ایک قابل قدر بنیاد ہوسکتی ہے اور دنوں ممالک کی اجتماعی بھلائی کے لیے کام کر سکتی ہے۔ دوطرفہ تجارت کو یقینی طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اسی طرح کاروبار، ادب، سیاحت اور فلموں کے شعبوں میں لوگوں کے درمیان رابطے کی ضرورت ہے۔ ایک بار پھر یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب موجودہ اختلافات کا خاتمہ ہو جائے اور ہندوستان جس نے غیر ضروری طور پر ہندوتوا کو ہوا دی ہے اسے دور کر دے۔ ادھر دونوںممالک کے درمیان کاروبار کے لئے ایک منصفانہ معاہدے کی ضرورت ہے اور مطلوبہ پہلا قدم بغیر کسی پیشگی شرط کے بات چیت شروع کرنا ہے کیونکہ جب تک دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے ایک دوسرے پر الزمات لگائے جاتے رہیں گے اس وقت تک ان کے درمیان حالات کشید ہ رہیں گے ۔ md.daud78@mail.com