پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے کسی پر تشدد کرنے کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ پاکستان میں آئے روز ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیش آیا جہاں اچھرہ بازار میں شاپنگ کے لیے آئی خاتون پر مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، خاتون پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے لباس پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔
بعدازاں پولیس کی حفاظت میں بیٹھ کر خاتون نے معافی مانگی اور مقامی علما کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ خاتون کی قمیض پر کوئی قرآنی آیت نہیں تھی بلکہ مذکورہ خاتون نے جو لباس پہن رکھا تھا اس پر عربی حروف میں ’حلوہ‘ لفظ پرنٹ تھا۔ عربی زبان میں حلوہ کے معنی حسین، خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔
اس واقعے کے بعد پاکستان میں کپڑوں کا مشہور برینڈ منٹو بھی زیرِ بحث آیا جو اپنے سکارف اور چادروں پر عربی حروف تہجی کی وجہ سے مشہور ہے۔ صارفین کا کہنا تھا کہ ایک برانڈ جس کی وجہ شہرت ہی یہ کیلی گرافی اسٹائل ہے وہ کیا کرے گا اور کیا اس برانڈ کے کپڑے پہن کر معاشرے میں نکلیں گے تو مذہبی انتہا پسند ان کو بھی موت کی دہلیز تک پہنچا دیں گے۔
ان سب سوالات کے بعد مشہور پاکستانی برانڈ منٹو نے اپنے گاہکوں کے لیے سوشل میڈیا سائیٹ انسٹاگرام پر چند سٹوریز شیئر کیں جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں حال ہی میں ہونے والے اس واقعے کا افسوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس دل دہلا دینے والے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ منٹو نے کسٹمرز کے لیے دیے جانے والے پیغام میں کہا کہ ایک انسان کے طور پر آپ کی حفاظت ہی ہماری ترجیح ہے اور اگر کسی بھی موقع پر آپ ’منٹو ‘کا لباس پہنتے ہوئے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں تو براہ کرم اس طرح کے لباس کو سائیڈ پر رکھ دیں۔ ہم کسی بھی قیمت پر یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی جان کو خطرے میں ڈالیں۔