دھمکیوں کی تحقیقات کا فیصلہ!

 

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف دھمکیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے اور تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن اسے آگے بڑھ کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مکمل تحقیقات کی جائیں اور تمام حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر کی جانے والی الزام تراشی کی اصل وجود سامنے آسکیں کیونکہ ایسی صورت میں عوام کا ملکی نظا م سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے ۔ گذشتہ روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بار بار یہ الزام لگایا ہے کہ ان کی زندگی خطر ے میں ہے اور ملک کے معاملات کو سنبھالنے والے کچھ متحرک افراد انہیں باہر نکالنے کیلئے یہ سازش کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سابق وزیراعظم کی جانب سے سنگین الزامات ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس کو نظر انداز کرنا مشکل کہ کیونکہ گزشتہ سال نومبر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر آباد میں وہ جان لیوا حملے میں بچ گئے تھے۔ اب جبکہ حکومت نے کمیشن بنانے کا اعلان کر ہی دیا ہے تو پھر یہاں نکتہ یہ ہے کہ کمیشن کو غیرجانبدارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پیشہ ورانہ طور پر کام چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ گندم کو کسی بھی دبا ئو میں آئے بغیر بھوسے سے الگ کیا جائے۔ادھر پی ٹی آئی نے متعدد ایف آئی آر درج کرائی ہیں جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے رہنما ء کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ مزید برآں سابق وزیر اعظم یہ کہتے ہوئے ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے اپنا ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا اور اپنے ساتھیوں کے پاس محفوظ کر لیا، قتل ہونے کی صورت میں اسے منظر عام پر لایا جائے۔ اس لئے اب اتنے واضح الزامات کی موجودگی میں یہاںپر منصفانہ کھیل کھیلا جانا چاہیے اور پی ٹی آئی کی قیادت کو آن بورڈ لینا چاہیے کیونکہ اگر کل ایسا کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کاجواب بھی موجودہ انتظامیہ کو دینا ہو گا ۔ پی ٹی آئی کے پاس پنجاب کی عبوری حکومت کے تحت ہونے والی کسی بھی تحقیقات سے اختلاف کرنے کی وجوہات ہیں کیونکہ وزیر آباد حملے کی تحقیقات کرنے والی اسی طرح کی جے آئی ٹی کو برخاست کر د یا گیا تھا اور ریکارڈ پر لائی گئی شہادتوں کو ایک طرف کر دیا گیا تھا۔ اس خون خرابے و بد اعتمادی کے بعد اب یہ بالکل واضح ہے کہ ان تحقیقات کو ایک جامع انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ یہ ملک میں پہلی بار نہیں ہورہا کہ کسی رہنماء کو دھمکی ملی ہو یا پھر اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا بلکہ اس قسم کے واقعات و حادثات کی بھی ہماری پاس ایک طویل فہرست بن گئی ہے ۔ ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دہشت گردحملوں میں پہلے بھی معروف شخصیات کا نقصان ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک کئی ایسے المناک واقعات ہیں جنہوں نے معاشرے اور اس کے سیاسی تانے بانے پر مہلک اثرات مرتب کیے ہیں جس کا خمیازہ قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ جب کہ آج کل عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں اس لئے کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ملک کو لاقانونیت کی گہرائی میں دھکیل سکتا ہے۔ اس طرح خطرے کے عنصر کی حقیقی اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہے اس لئے اب انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے اور کمیشن سے یہی توقع ہے۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed