قانون توڑ کر چیئرمین نیب کو توسیع دی جا رہی ہے: شاہد خاقان عباسی

مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ قانون اور آئینی تقاضوں کو توڑ کر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو توسیع دی جا رہی ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر قلم لے کر وزرا کے تیار کردہ آرڈیننس پر دستخط کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، قانون کہتا ہے کہ مشاورت کی جائے لیکن وزیرِ اعظم انکار کر رہیہیں۔سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ چیئرمین نیب کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہو سکتی، چیئرمین نیب کی مدت میں 3 دن رہ گئے ہیں، ابھی تک نئے چیئرمین کے لیے مشاورت نہیں کی گئی، وزیرِ اعظم چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کر رہے۔انہوں نے کہا کہ پنڈورا پیپرز میں جن کے نام آئے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے کمپنی کیوں بنائی، یہ کرمنل کارروائی ہوتی ہے، کمیشن اور کمیٹی کا کام نہیں، پنڈورا پیپرز میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے ہیں، جب تک کسی کے خلاف ثبوت نہ آئے وہ بے گناہ ہوتا ہے، تاہم وہ جیل میں پہلے ڈالا جاتا ہے پھر ثبوت ڈھونڈے جاتے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کا نام بھی نہیں تھا، ان کو سزا دی گئی، ان 700 افراد کے لیے بھی وہی طریقہ ہونا چاہیئے جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا تھا، جب سے یہ رپورٹ آئی ہے، نیب نے کوئی کارروائی کی ہے؟ان کا کہنا ہے کہ جب سے حکومت آئی ہے 15 سے 20 کمیشن بنے ہیں، کس کو کیا سزا ہوئی کچھ پتہ نہیں، حکومت کی ذمے داری ہے کہ جو طریقہ نواز شریف کے ساتھ اپنایا گیا وہ ان 700 افراد کے ساتھ بھی اپنایا جائے، ان 700 افراد کو بھی پہلے جیل میں ڈالیں پھر ان کے خلاف تحقیقات کریں۔مسلم لیگ نون کے رہنما نے کہا کہ نون لیگ کے لیے کوئی اور قانون ہے اور باقیوں کے لیے کوئی اور ہے، نواز شریف وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، وزیرِ اعظم کے پاس تحقیقات کرنے کا کوئی حق نہیں، ادارے تحقیقات کریں۔انہوں نے پھر مطالبہ کیا کہ اگر شہباز شریف، احسن اقبال اور دیگر کو الزام لگا کر جیل میں ڈالا جاتا ہے تو ان 700 افراد کو بھی جیل میں ڈالیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed