اگست 2024میں برطانیہ میں ایک عجیب واقعہ سامنے آیا تھا جب 121 سال پہلے ارسال کیا گیا پوسٹ کارڈ بہت زیادہ تاخیر کے بعد درست پتے پر پہنچ گیا جس کی بدولت ایک خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد آپس میں مل گئے۔اب اس واقعے سے جڑے نک ڈیوس نے اس بارے میں ایک تفصیلی مضمون برطانوی روزنامے کے لیے لکھا ہے۔انہوں نے بتایا کہ "اگست 2024 میں مجھے Ancestry ڈاٹ کام سے ایک میسج موصول ہوا، ایک خاتون Rhian جن کا آخری نام بھی ڈیوس تھا، نے مجھے ایک نیوز اسٹوری کا لنک بھیجا جسے میں نے بہت زیادہ دلچسپی سے پڑھا’۔اس نیوز اسٹوری میں بتایا گیا تھا کہ سوانزی بلڈنگ سوسائٹی کے صدر دفتر میں حال ہی میں ایک پوسٹ کارڈ پہنچا تھا جس پر 1903 کی پوسٹ مہر لگی ہوئی تھی اور اسے ایک لڑکی لیڈیا ڈیوس کے لیے بھیجا تھا، جو اس وقت اس پتے پر رہتی تھی۔121 سال بعد موصول ہونے والے پوسٹ کارڈ ملنے کے بعد عمارت کے عملے نے لیڈیا ڈیوس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کی تلاش شروع کی۔اس پوسٹ کارڈ میں ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی جو کہ اسکاٹش ہائی لینڈز پر مبنی ایک آئل پینٹنگ کی تھی۔نک ڈیوس کے مطابق ‘مگر کارڈ کی دوسری جانب مجھے زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی، جہاں لکھا تھا کہ ڈئیر ایل، یہ ناممکن ہے کیونکہ میں اسے حاصل نہیں کرسکا، تو میں معذرت خواہ ہوں، مگر مجھے توقع ہے کہ تم گھر پر اچھا وقت گزار رہی ہوگی’۔اس پیغام کے آخر میں Ewart نام کے دستخط تھے اور نیوز اسٹوری میں بتایا گیا تھا کہ ویسٹ گلیمورگن آرکائیو سروس کے مطابق لیڈیا کی عمر 1903 میں 16 سال تھی اور وہ 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، جو سب 1903 میں یہاں رہتے تھے۔Ewart لیڈیا کا 13 سالہ بھائی تھا اور نک ڈیوس نے اس اسٹوری کو پڑھنے کے بعد اپنے شجرہ نسب کے بارے میں تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ Ewart ان کے دادا ہیں۔اگرچہ ان کی وفات نک ڈیوس کی پیدائش سے قبل ہوچکی تھی مگر اب بھی ڈیوس اور Ewart کے درمیان ایک تعلق موجود تھا اور وہ ان کی آخری حیات بیٹی اور نک ڈیوس کی پھوپھو روز میری تھیں۔نک ڈیوس کی جانب سے روز میری سے فون کے ذریعے رابطہ کیا گیا جو اب سان فرانسسکو میں مقیم ہیں اور وہ یہ خبر سن کر بہت زیادہ پرجوش ہوگئیں۔اس کے بعد نک ڈیوس نے بلڈنگ سوسائٹی کو فون کیا اور نیوز اسٹوری کرنے والے پروڈیوسر سے بھی رابطہ کیا جو لیڈیا کے خاندان کے کسی فرد کو یہ پوسٹ کارڈ دیے جانے کے لمحے کی ویڈیو بنانا چاہتا تھا۔پروڈیوسر نے بتایا کہ لیڈیا سے جڑی 2 خواتین پہلے سے ہی اس سے رابطے میں ہیں اور ان کے نام بتائے، جو نک ڈیوس نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔اس ملاقات کی شوٹنگ سوانزی کے آرکائیو آفس میں ہونا تھی تو نک ڈیوس اپنی اہلیہ کے ساتھ اگلے دن وہاں کے لیے روانہ ہوئے۔سسیکس سے تعلق رکھنے والے نک ڈیوس زندگی میں کبھی ٹی وی اسکرین پر نہیں آئے تھے اور اس وجہ بہت زیادہ نروس تھے۔نک ڈیوس کی چیف آرکائیوسٹ اینڈریو کے ساتھ بات چیت کی ویڈیو بنائی گئی جس کے پاس لیڈیا اور Ewart کی تصاویر موجود تھیں۔اینڈریو نے نک ڈیوس کو وہ پوسٹ کارڈ دکھایا جس پر کنگ ایڈورہفتم کی ڈاک ٹکٹ لگی تھی۔نک ڈیوس کے مطابق انہیں یہ پوسٹ کارڈ ہاتھ میں لینے کے بعد بہت عجیب محسوس ہوا کیونکہ یہ وہ چیز تھی جو ان کے دادا نے اس وقت خریدی جب وہ بچے تھے اور ان کے الفاظ نے نک ڈیوس کو مسحور کر دیا۔جب نک ڈیوس پوسٹ کارڈ کو دیکھ رہے تھے تو 2 خواتین وہاں آئیں اور اینڈریو نے بتایا کہ یہ ہمارے خیال میں تمہاری رشتے دار ہیں۔اس طرح نک ڈیوس پہلی بار اپنی کزنز مارگریٹ اور ہیلن سے ملے اور اس لمحے کو متعدد افراد نے دیکھا۔تینوں کی شکلوں میں مماثلت نہیں تھی اور نک ڈیوس کے مطابق اگر ہم کسی سڑک پر آمنے سامنے سے گزرتے تو ہم یہ احساس کیے بغیر گزر جاتے کہ ہم رشتے دار ہیں۔لیڈیا اور Ewert کے بس ایک بھائی اسٹینلے ابھی زندہ ہیں جو ویلز میں مقیم ہیں، مارگریٹ اور ہیلن اسٹینلے کی پوتیاں ہیں اور اپنے دادا کے قریب ہی رہتی ہیں۔لیڈیا کی پوتی کی بیٹی Faith بھی انگلش شہر ڈیون سے سفر کرکے ان سے پہلی بار ملنے پہنچیں۔سب افراد نے اپنے پاس موجود تصاویر کا تبادلہ کیا اور اپنے خاندان کے گمشدہ ٹکڑوں کو جوڑا اور پہلی بار نک ڈیوس نے اپنے دادا کے والدین کی تصاویر کو بھی دیکھا۔سب افراد کے درمیان نئے تعلقات قائم ہوئے اور شجرہ نسب کے گمنام ناموں کو چہرے مل گئے۔اس سب کے بعد نک ڈیوس نے Rhian سے رابطہ کیا جو یہ جان کر بہت خوش ہوئیں کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوئی۔Rhian نے جب اس نیوز اسٹوری کو پڑھا تھا تو انہیں لگا تھا کہ وہ لیڈیا کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں مگر ایسا نہیں ہوسکا تو انہوں نے اس اسٹوری کو ایسے تمام افراد کو بھیج دیا جن کے نام کے آخر میں ڈیوس موجود تھا۔برطانیہ میں ڈیوس 5 واں سب سے عام خاندانی نام ہے تو اس خاندان کے افراد کا آپس میں مل جانا کسی کرشمے سے کم نہیں۔مگر اب تک ایک اسرار حل نہیں ہوسکا کہ آخر یہ پوسٹ 121 سال تاخیر کے بعد کیسے اپنی منزل پر پہنچا۔نک ڈیوس کا خیال ہے کہ شاید لیڈیا نے اسے 1903 میں موصول کیا ہو مگر گزرے برسوں میں یہ مختلف ہاتھوں سے گزرا ہو اور پھر کسی فرد نے تفریح کے لیے اسے دوبارہ پوسٹ کر دیا۔نک ڈیوس کے مطابق اس فرد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا یہ اقدام ایک خاندان کے متعدد بچھڑے ہوئے افراد کے ملاپ کا باعث بن جائے گا۔







