آج کل پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں پیش آنے والا واقعہ قوم کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر یہ فرقہ وارانہ انارکی صوبے اور پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی پھیل گئی تو مستقبل میں اس مخمصے پر قابو پانا بہت مشکل ہو گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے حریف قبائل کے درمیان جنگ بندی کے بعد حالات اب کنٹرول میں نظر آرہے ہیں لیکن اب متاثرہ علاقے میں قانو ن ہاتھ میں لینے والوں سے نمٹنے کے لیے حکومتی رٹ کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت پرامید ہے کہ جلد ہی علاقائی "جرگہ” عمائدین کی مدد سے علاقے میں دیرپا امن برقرار رہے گا۔چند روز قبل وزیر اعلیٰ خیبر علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے بہت گہری نظر رکھتی ہے اسی لیے جو بھی مجرم اس درندگی میں ملوث ہوگا اسے قانون کے شیڈول فور میں ڈالا جائے گا۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ صوبائی حکومت علاقے میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے لیکن علاقے کے سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی مدد سے دونوں حریف قبائل کے درمیان حالات کو پرسکون کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعرات کو گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے گورنر ہائوس میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں صوبائی ، حکومت کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ناقدین کا کہنا ہے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کی ایسی سرگرمی کا بائیکاٹ کرنا بالکل بھی درست فیصلہ نہیں ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو آل پارٹیز کانفرنس نے مرکز اور خیبر پختونخوا کی حکومت کو صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے "خطرناک” قرار دیا۔ اے پی سی نے اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں 16 جماعتوں نے دستخط کئے۔ اے پی سی نے ایک اعلامیہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تشدد میں زبردست اضافے کو نوٹ کیا ہے کہ صرف گزشتہ ماہ میں 70 سے زائد سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔کل جماعتی کانفرنس نے اس سال کرم بدامنی میں 200 سے زائد ہلاکتوں پر روشنی ڈالی جس میں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر غیر موثر طرز حکمرانی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت قبائلی اضلاع کے لیے مختص فنڈز کے اجرا سمیت فوری اقدامات کا بھی مطالبہ کیا گیا جو دو سال سے زائد عرصے سے غیر فعال ہیں۔ اعلامیہ میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ کے لیے مختص کی گئی رقم کا 3 فیصد پانچ سالوں میں جاری نہیں کیا گیا، مطالبہ کیا گیا کہ واجب الادا رقم جاری کی جائے۔ گورنر کنڈی نے کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبے کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 99 فیصد سیاسی جماعتیں اے پی سی میں جمع ہوئی تھیں تاکہ وفاقی حکومت اور دنیا کو کے پی کی سیاسی قیادت کے اتحاد کے بارے میں ایک مضبوط پیغام بھیج سکیں۔ انہوں نے امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "کیا ہم صوبے کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے؟ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔” کنڈی نے اس سال کرم میں 200 سے زیادہ جانیں ضائع ہونے کی طرف اشارہ کیا اور امن کے قیام کے لیے وفاقی عزم کا مطالبہ کیا۔ اگر کل جماعتی کانفرنس کو پس پشت ڈال دیا جائے تب بھی
یہ ہر سیاسی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ یہ انسانیت کا معاملہ ہے۔ خاص طور پر یہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا مینڈیٹ ہے کہ وہ کرم جیسے فرقہ وارانہ علاقوں میں اپنی رٹ کو مستحکم کریں لیکن حکمران اور حزب اختلاف جماعتوں کے درمیان سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے ملک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ خطے کے فرقہ وارانہ مسائل کے خاتمے کے لیے ایک سادہ اور پائیدار منصوبہ بندی کو اولین ترجیح دیں کیونکہ یہ دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔md.daud78@gmail.com