شعیب جمیل
پشاورہائیکورٹ نے سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے سربراہ محمود خان کیخلاف اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے درج ایف آئی آر کی منسوخی کے لئے دائر درخواست پر محکمہ انٹی کرپشن کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہوئے انہیں دوسری درخواست دائر کرنے کی اجازت دیدی ۔ کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس اعجاز خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ درخواست گزار محمود خان کی جانب سے سلطان محمد خان ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت بتایا کہ اسکے موکل سابق وزیر اعلی ہیں جس پر 2018 کے ایک کیس میں آنٹی کرپشن نے کاروائی شروع کی تھی تا ہم انہیں کوئی معلومات نہیں دی گء جس۔ پر انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اسے عبوری ریلیف مل گیا تا ہم بعد میں انہیں پتہ چلا کہ باقاعدہ طور پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے جو سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر جو بھی حکومت سے جاتا ہے اس کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں کیونکہ موجودہ درخواست گزار پہلے پی ٹی آئی میں تھا اور بعد میں انہوں نے دوسری پارٹی بنائی اور اسی وجہ سے اس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے انہوں نے عدالت کوبتایا کہ وفاقی حکومت جب بھی پی ٹی آئی کے خلاف کوئی ایکشن لیتی ہے تو سارا ملبہ ہمارے موکل اور اس کی پارٹی پر خیبر پختون خوا میں گر جاتا ہے کیونکہ وفاقی حکومت جب بھی پی ٹی آئی کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو یہاں پر جواب میں یہ موجودہ درخواست گزار اور اس کے پارٹی کے دیگر رہنماوں کے خلاف مقدمات درج کرنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ سیاست دانوں کے خلاف گائے کی چوری کا مقدمہ بھی درج ہوتا ہے