36ارب روپے بڑے سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد محکمہ خزانہ، سی اینڈ ڈبلیو اور اے جی آفس کے متعلقہ افسر معطل کر دیئے گئے۔تفصیلات کے مطابق ضلع کوہستان میں36ارب روپے سرکاری خزانہ سے نکالنے کے سب سے بڑے سکینڈل سے صوبائی حکومت کے تمام ادارے بے خبر نکلے اور خود کو بری الذمہ کردیا۔گزشتہ6سالوں سے یہ سلسلہ جاری تھا لیکن کسی بھی ادارے کی جانب سے اس پر ایکشن نہیں لیا جارہا تھا۔ اس ضمن میں نشاندہی پر خیبر پختونخوا کی صوبائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا، اور سپیکر اسمبلی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں کمیٹی ممبران، نیب حکام، محکمہ خزانہ کے حکام اور سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے حکام بھی شریک تھے۔اجلاس کے دوران کسی بھی ادارے نے اس سکینڈل کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور معاملہ ایک دوسرے پر اچھالتے رہے جس پراسمبلی کی پبلک اکانٹس کمیٹی نے محکمہ خزانہ، سی اینڈ ڈبلیو اور اے جی آفس کے متعلقہ افسران کی معطلی کے احکامات جاری کرکے 3 دن میں بدعنوانی کی رپورٹ طلب کرلی۔پبلک اکانٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ بد عنوانی کا سکینڈل صرف 36 ارب تک محدود نہیں اگر اس کی جامع جانچ پڑتال کی گئی تو بد عنوانی سکینڈل کا حجم 200 ارب روپے سے زائد ہوگا جس میں بڑے پیمانے پر بیوروکریٹس کیساتھ ساتھ سیاسی ٹائوٹس بھی ملوث ہیں۔سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو نے بدعنوانی کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ رقم محکمہ خزانہ ، اے جی آفس اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے اکانٹ سیکشن کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی، اس دوران سپیکر اور مشیر خزانہ کے درمیان دوبارہ مکالمہ بھی ہوا، مشیر خزانہ نے اس معاملے پر سوال پوچھنے کی کوشش کی جس پر سپیکر نے مشیر خزانہ مزمل اسلم کو سوال سے روکتے ہوئے کہا کہ رک جائیں، سوال آپ نے نہیں ہم نے آپ سے کرنے ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ نیب نے پہلے ہی معاملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور اب اسمبلی کی سطح پر تمام حقائق کی چھان بین ضروری ہے۔اکاونٹنٹ جنرل خیبرپختونخوا نے اجلاس کو بتایا کہ 2024 میں ہمیں اس اکائونٹ میں بدعنوانی کا پتہ چلا تو اس کے بعد یہ اکائونٹ بند ہوگیا، 2016 سے اب تک اس اکائونٹ نمبر 10113 میں 181 ارب 53 کروڑ روپے جمع کئے گئے، اس عرصہ کے دوران اس اکائونٹ سے 206 ارب روپے نکالے گئے جس میں24 ارب روپے کا فرق ہے۔سپیکر نے کہا کہ جب اکائونٹ میں پیسے ہی نہیں تھے تو 24 ارب روپے کیسے غائب ہوئے اور اگر سسٹم میں سینئر افسران بیٹھے ہیں تو اتنی بڑی بدعنوانی کیسے ممکن ہوئی ہے، 6 سالوں تک خورد برد ہوتی رہی۔ا کائونٹنٹ جنرل نے وضاحت کی کہ ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفیسرز ضلعی سطح پر فنڈز کی نگرانی کرتے ہیں ہمارا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کا ہمیشہ اس مسئلے پر تنازعہ رہتا ہے تاہم سپیکر نے اسے غیر تسلی بخش قرار دیا اور کہا کہ آپ کی بات دل کو نہیں لگتی آپ باتوں کو گول گول گھما رہے ہیں۔محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے سیکرٹری نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ یہ رقم ان کے اکائونٹ سیکشن، اے جی آفس اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ تمام چیک کے دستخط معلوم کئے جائیں تو پوری کہانی سامنے آ جائے گی چیک ڈسٹرکٹ اکائونٹ آفیسر جاری کرتاہے، اے جی آفس اور فنانس کو کیوں پتہ نہیں چلا کہ اتنی بڑی رقم نکالی جارہی ہے۔مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کمیٹی کو بتایا کہ کوہستان کے 3 اضلاع کی سی اینڈ ڈبلیو کو 2019 سے 2024 تک 4 ارب 16 کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں، اسی طرح 2019 سے 2024 تک صوبہ کے بندوبستی اضلاع کیلئے ترقیاتی کاموں کی مد میں 594 ارب روپے جاری ہوئے، 6 سال میں پورے صوبہ کو سڑکوں کی تعمیرات کی مد میں 125 ارب روپے جاری کئے گئے ہیں
رم جھم سنئیے محترمہ ناز پروین کا کالم احساس میں
ویڈیو پلیئر
00:00
00:00