شعیب جمیل
پشاور ہائیکورٹ کے تین رکنی لارجر بنچ نے پولیس کے ہاتھوں گرفتار حیات آباد کے پانچ افراد کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کردیا اور اس کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی جبکہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ یہاں پر قانون نہیں ہے، دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے لوگوں کی بے عزتی کریں گے، آپ یہ پریکٹس ختم کرلیں کہ پہلے بندے کو گرفتار کرتے ہیں اور بعد میں ایف آئی آر درج کرتے ہیں جبکہ جسٹس سید ارشدعلی نے کہا کہ پھر ہم وزیراعظم اور آٹارنی جنرل کو بلاتے ہیں ۔ ہم لارجر بنج بنائیں گے، فل کورٹ بیٹھ جائے گا اس کیس کو سنیں گے، شہریوں کو حراست میں لیا ہے تو اس کا قانونی جواز دیں بنچ کے ایک اور رکن جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب اس دن سے ڈرو جب آپ کے لوگ یہاں کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمارے اے جی صاحب لاپتہ ہے اس کو بازیاب کریں۔ کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور،جسٹس سید ارشدعلی اور جسٹس صاحبزادہ اسداللہ پر مشتمل تین رکنی لارجر بنچ نے کی۔ عدالت میں درخواست گزار عبدالحلیم کے وکیل آمین الرحمان، یاسین علوی، فدا گل ایڈوکیٹ، ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختون خوا شاہ فیصل اتمان خیل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ، سی سی پی او پشاور محمد قاسم پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ عمان سے آئی ہوئی خاتون کی بازیابی کے لئے پولیس تھانہ حیات آباد کے ایس ایچ او نے بھاری نفری کے ہمراہ ان کے موکل کے گھر پر چھاپہ مارا اور 27 اپریل کو ان کے گھر سے پانچ افراد کو اٹھا کر لے گئے گزشتہ پیشی پر عدالت نے گرفتار افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا ، لیکن ابھی تک انکا کچھ پتہ نہیں چل رہا پولیس کہہ رہی ہے کہ بندے ان کے پاس نہیں۔اس موقع پر جسٹس اعجاز انور نے سی سی پی او سے استفسار کیا کہ مذکورہ افراد کہاں ہے جس پر سی سی پی او نے عدالت کوبتایا کہ لاپتہ افراد ہمارے پاس نہیں ہے ، تمام افراد کو 107 چالان پر ہم نے ضمانتوں پر رہا ہے۔ جس پر جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ پولیس کی کاروائی بدنیتی پر مبنی ہے جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ چلو ہم آئی جی پولیس کو طلب کرتے ہیں عدالت نے آئی جی کو ایک گھنٹے میں پیش ہو کر مذکورہ افراد کو پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی۔ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی چیف کیپٹل سٹی پولیس پشاور نے عدالت کوبتایا کہ عمان سے آئی ہوئی خاتون لاپتہ ہے، لاھور آئی تھی اور پھر پشاور جبکہ خاتون کا سامان درخواست گزاروں کے گھر سے برآمد ہوا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے عدالت کوبتایا کہ جن افراد کی بازیابی کے لئے یہ رٹ دائر کی گئی ہے ان کے گھر سیلاپتہ خاتون کا سامان برآمد ہوا ہے، پولیس نے گرفتار افراد ضمانت پر رہا کیا ہے۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کس قانون کے تحت آپ نے ان کے رشتہ داروں کو اٹھایا ہے،اے جی نے عدالت کوبتایا کہ ہمیں تو ایف آئی آر سے روکا گیا تھا جس پر جسٹس سید ارشدعلی نے کہا کہ آپ کو کس نے ایف آئی آر سے روکا ہے۔؟ عدالتی حکم نامہ میں کہا لکھا گیا ہے کہ ایف آئی آر درج نہ کریں جبکہ جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ اے جی صاحب پھر آپ کہیں کہ مذکورہ افراد ہمارے پاس ہے مگر آپ خود مطمئن نہیں ہے ہمیں کیسے مطمئن کریں گے جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہمارے آرڈر کی خلاف ورزی کی گئی ہے، بندے پیش کریں بصورت دیگر سی سی پی اور آئی جی کے خلاف کارروائی کریں گے اس کو بازیاب کریں یہاں پر قانون نہیں ہے