شعیب جمیل
پشاورہائیکورٹ نے سینئر وکیل اورممبر بارکونسل رضاء اللہ کے قتل کیس میں اس کے ملزم بھتیجے کی سزائے موت اور جرمانے کی سزا کالعدم قرار دے دی اور اسے مقدمے سے بری کرنے کاحکم دے دیا ہے۔ جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل بنچ نے شبیرحسین گگیانی ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر ملزم جابر کی اپیل پر سماعت کی۔ استغاثہ کے مطابق ملزم جابر پر الزام تھاکہ اس نے 16نومبر2022کو جائیداد تنازعہ پر اپنے چچا رضااللہ خان کو گورا بازار صدر میں اپنے دفتر کے اندر فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھااور حالت نزع میں انہوں نے بھتیجے جابر پر دعویداری کی جو کچھ روز بعد جاں بحق ہوگئے تھے۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا تھا اور ٹرائل کورٹ نے 29جون 2024 کو ملزم کو جرم ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا سنادی تھی۔ اپیل پر سماعت کے دوران شبیرحسین گگیانی ایڈوکیٹ نے بتایاکہ پولیس تفتیش کے مطابق مقتول کو 8گولیاں لگیں تھیں، ایسے میں وہ بیان دینے کے کیسے قابل ہوسکتا ہے؟ اسی طرح جو پولیس مراسلہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اس پر نہ وقوعہ کا وقت درج تھا نہ اس پر زخمی رضا اللہ اور مذکورہ ڈاکٹر کے دستخط تھے۔ بیان نزع میں ڈاکٹر کی جانب سے سرٹیفیکیٹ پر باقاعدہ دستخط ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید دلائل دیئے کہ بیان نزع میں صرف بیان پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا بلکہ دیگر شواہد بھی ضروری ہوتے ہیں کیونکہ اس میں جرح نہیں ہوتی۔ اسی طرح حساس علاقے جہاں جگہ جگہ کمرے نصب ہیں اس کے باوجود سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل نہیں کیے گئے شفاف انویسٹی گیشن کیلئے کیمرے چیک کرنے چاہیے تھے۔ پولیس نے شفاف تحقیقات نہیں کیے بلکہ دباو میں اکر یہ سب کچھ کیاگیا۔ واقعہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جو ملزم نے خود فراہم کی اور اس کی فرانزک جانچ پڑتال ہونی چاہیے تھی کیونکہ ویڈیو میں نظر انے والا شخص ملزم نہیں تھا۔ عدالت کوبتایاگیاکہ مقتول وکیل کے دیگر مختلف تنازعات بھی چل رہے تھے لہذا ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں کئی اہم قانونی نقاط کو نظرانداز کرتے ہوئے اسیسزا سنائی جو درست نہیں لہذا ملزم کی سزا کالعدم قرار دی جائے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر ملزم کی سزائے موت اور جرمانے کی سزا کالعدم قرار دیکر بری کردیا ہے