سرکاری افسرعدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتے،چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ

شعیب جمیل

پشاور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا ہے کہ اس وقت سرکاری محکموں کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں توہین عدالت کی درخواستیں دائر ہیں رولز موجود ہیں سب کچھ ہے مگر پھر بھی متعلقہ محکموں کے افسران عدالتی حکم پر عمل نہیں کررہے پہلے ہائیکورٹ کا حکم جاتا ہے اس پر عمل درامد نہیں ہوتا پھر توہین عدالت کی درخواستوں میں بھی جواب نہیں آتا اور جب لوگوں کو عدالتوں سے ان کے فیصلوں پر عمل درامد کا پھل نہیں ملتا تو پھر لوگ مایوس ہو جاتے ہیں اگر صوبائی حکومت کسی فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جانا چاہتی ہے تو یہ ان کا قانونی حق ہے لیکن جہاں تک پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کے بعد اس کے حتمی ہونے کا سوال آتا ہے ان فیصلوں پر عمل درامد کرنا ہوگا مگر یہاں پر بدقسمتی سے زیادہ تر ایسے افسران آتے ہیں جنہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کیس میں کیا ہے اور عدالت کی کیا معاونت کرنی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روز خیبرپختون خوا کے مختلف محکموں کے خلاف دائر توہین عدالت کی 450 سے زائد درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ دو رکنی بنچ چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس سید ارشدعلی پر مشتمل تھا اس موقع پر چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا شہاب علی شاہ ، ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمان خیل سمیت تمام محکموں کے سیکرٹریز اور دیگر افسران پیش ہوئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ سے استفسار کیا کہ چیف سیکرٹری صاحب آپ ہمیں بتا دیں کہ ہائیکورٹ جب ایک فیصلہ دے دیتی ہے اپ کے پاس رولز موجود ہیں پھر وہ فیصلہ متعلقہ محکموں کے پاس جاتا ہے اس پر عمل درامد نہیں ہوتا پھر وہ درخواست گزار دوبارہ توہین عدالت کی درخواست وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور پھر اگر توہین عدالت کے بعد بھی کوئی حکم جاتا ہے پھر بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ان چیزوں کی وجہ سے آپ کو یہاں پر بلایا گیا ہے ہمیں احساس ہے کہ اس وقت ہمارا صوبہ جن حالات سے گزر رہا ہے کہ سب کو احساس ہے لیکن اپ کو بلانا ضروری تھا اس موقع پر چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ روز کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں سیکرٹری لا اور ایڈوکیٹ جنرل آفس کے افسران کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کیسز کا جائزہ لیا جا سکے اور جن کا حق بنتا ہے اسے بغیر توہین عدالت درخواست دار کرنے کے دیا جا سکے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمیٹی تو پہلے بھی موجود تھی جس پر چیف سیکرٹری نے عدالت کوبتایا کہ یہ کمیٹی پہلے تھی تاہم اسے دوبارہ فعال کیا گیا ہے اور اسے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ماہانہ رپورٹ دینگے اور سیکرٹری لا باقاعدہ طور پر رپورٹ تیار کرکے چیف سیکرٹری اور رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ کو فراہم کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر