افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ کا اجرا ،زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی ، مصطفی جمال

ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی نے کہا ہے کہ افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کا معاملے میں پہلی بار ہوا کہ زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی، ہر جگہ کچھ نہ کچھ کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں، یہ ایک قومی سکیورٹی کا مسئلہ تھا، جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، تحقیقات میں اداروں نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور ہم ایک منطقی انجام تک پہنچے ،دبائو اور رکاوٹیں ہمیشہ آتی ہیں، لیکن اگر قیادت واضح موقف اختیار کرے اور صحیح سمت میں کھڑی ہو تو نیچے والے بھی مسائل پیدا نہیں کرتے۔واضح رہے کہ پاکستان میں جعلسازی کے ذریعے افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کے معاملے کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک میں کئی سرکاری افسران بھی ملوث تھے، جن میں کئی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز اور فوجداری مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ اس حوالے سے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب میں نے چارج سنبھالا تو اس دن مجھے سعودی عرب میں مقیم ایک دوست، جو پہلے پاکستان میں سعودی قونصل جنرل رہ چکے تھے، کا پیغام ملا۔ انھیں وہاں معلوم ہوا کہ مجھے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی )مقرر کیا گیا ہے۔ چونکہ میں کراچی میں ڈی سی ساتھ تھا اور وہ وہاں قونصل جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے، وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ انھوں نے مبارکباد دی اور کہا کہ ایک تحفہ بھیج رہے ہیں۔ میں نے سوچا شاید کھجوریں یا زمزم ہوگا، مگر چند دن بعد ڈی ایچ ایل کے ذریعے کچھ ڈبے موصول ہوئے۔ جب میں نے انھیں کھولا تو ان میں تقریبا 300 پاکستانی پاسپورٹ تھے۔انھوں نے کہا کہ جب دوست سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی پاسپورٹ ہیں جو افغان شہریوں کو جاری کیے گئے تھے، اور مزید بوریوں میں بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے اپنے ادارے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے والے ڈی جی کے دور میں سعودی عرب سے ایک سرکاری خط آ چکا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ اس پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جواب ملا کہ اس میں بڑا خطرہ تھا، پاسپورٹ کی بدنامی ہو سکتی تھی۔ ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کا کہنا ہے کہ میں نے کہا کہ اگر غلط طریقے سے پاسپورٹ بنے ہیں اور ہم اصلاحی اقدامات کر رہے ہیں، تو ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم یہ معاملہ خود نہ کھولیں تو کل کوئی اور اسے اٹھا کر ہمیں مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اصل مجرموں کو ہم ہی پکڑ لیں۔ چنانچہ میں نے اس مسئلے پر باقاعدہ خط لکھا اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا۔انھوں نے انکشاف کیا کہ خط کے بعد مجھ پر دبا آنا شروع ہوا۔ ایک صاحب میرے دفتر بھی آئے اور مشورہ دیا کہ میں اس معاملے میں نہ پڑوں۔ میں نے دو ٹوک جواب دیا کہ یہ میرا کام ہے، اور میں ہر قسم کا خطرہ لینے کے لیے تیار ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر