شعیب جمیل
پشاورہائیکورٹ نے جعلی اسناد پر بھرتی کے بعد برطرف ہونے والے اساتذہ کی بحالی کیلئے دائر رٹ درخواستیں خارج کردی اور حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا کیس کی سماعت پشاورہائیکورٹ جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ثابت اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی ۔عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل تیمور حیدر اور اسدجان درانی ایڈوکیٹس پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت کوبتایا کہ حکومت نے ان کے موکلوں کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا ہے جو ان کے ساتھ زیادتی ہے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایا کہ درخواست گزار جعلی تعلیمی اسناد پر بھرتی ہوئے تھے اور انہوں نے ابتدائی مرحلے میں اس کو چھپایا مگر بعد میں جب دستاویزات کی سکروٹنی کی گئی اور تحقیقات کی گئی تو ان کے تعلیمی اسناد جعلی نکلے جبکہ متعلقہ یونیورسٹیوں سے تصدیق کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی تعلیمی اسناد کو جعلی قرار دیا اور قرار دیا کہ یہ ڈگریاں جعلی ہیں۔ انہوں نے عدالت کوبتایا کہ جعلی اسناد جمع کرنا غیرقانونی کام ہے اور حکوت کی جانب ایسے عناصر کے خلاف پالیسی واضح ہے انہوں نے عدالت کوبتایا کہ اس طرح کے افراد نظام میں بد نظمی پھیلاتے ہیں جبکہ جن لوگوں نے ڈگریاں حاصل ہیں یہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور ان کی حق تلفی ہے ان لوگوں کے خلاف کاروائی ناگزیر تھی اور حکومت نے دستاویزات جعلی ہونے پر انہیں نوکری سے برطرف کیا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر تمام رٹ درخواستیں خارج کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو درست قرار دی۔