بوکھلاہٹ کا شکار ٹرمپ کے متنازعہ بیانات

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد امریکی انتظامیہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات میں مصروف ہے۔ ایک ہفتے یا اس سے کم وقت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت متنازعہ بیانات جاری کیے ہیں جن سے انہیں دستبر دار ہونا پڑا جس سے بین الاقوامی برادری میں امریکہ کے سافٹ امیج کو نقصان پہنچا ہے۔اس رویے کے ساتھ امریکی انتظامیہ خود کو شرمناک پوزیشن میں پاتی ہے۔ کچھ دن پہلے صدر ٹرمپ نے کینیڈا کے بارے میں ایک بیان جاری کیا کہ امریکی حکومت پڑوسیوں کے خلاف تجارتی جنگ کے طور پر کینیڈا سے درآمد کردہ ساز و سامان پر 25 فیصد ٹیکس لگائے گی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس کے جواب میں اعلان کیا کہ کینیڈا امریکی تجارتی کارروائی کا جواب 155 بلین ڈالر کی امریکی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ دے گا۔ اس میں $30 بلین مالیت کی اشیا ء پر فوری محصولات شامل ہوں گی جس کے بعد 21 دنوں کے اندر $125 بلین مالیت کی امریکی مصنوعات پر مزید ٹیرف شامل ہوں گے تاکہ کینیڈین کمپنیوں اور سپلائی چینز کو متبادل تلاش کرنے کی اجازت دی جا سکے۔اس کے بعدٹرمپ نے میکسیکو کی اشیا پر بھی 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا۔مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق میکسیکو ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جو کل تجارت کے 15% سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے 2023 میں $475 بلین مالیت کی میکسیکن مصنوعات درآمد کیں جو کہ گزشتہ دہائی میں تقریبا ً70 فیصد بڑھی ہے۔ میکسیکو کو امریکی برآمدات بھی 322 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہ اگر امریکہ میکسیکو کی اشیا ء پر کوئی ٹیرف لگاتا ہے تو وہ مزید استعمال کرنے کا بائیکاٹ کریں گے جو کہ امریکہ کی بنائی ہوئی کاروں موبائلوں اور یہاں تک کہ وہ ہالی ووڈ کی چالوں پر بھی پابندی لگا دیں گے اور پھر ان کی جگہ چائنیز اور یورپی اور ایشیائی سامان لے لیں گے۔ میکسیکو کے صدر نے بھی امریکی صدر کو میکسیکن امریکہ کا نقشہ دکھا کر ٹرول کیا۔کینیڈین اور میکسیکو کے تھپڑوں نے امریکی انتظامیہ کو ان پابندیوں میں تاخیر کرنے پر مجبور کر دیا۔ مذکورہ ڈرامہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور تنازعہ کھڑا ہو گیا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی کو ایک پرتعیش ساحلی تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کی تجویز نے ریئل اسٹیٹ کے عزائم سے ان کی انتظامیہ کے تعلقات اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے اخلاقی مضمرات کے بارے میں دوبارہ بحث چھیڑ دی ہے۔جس خیال کو ٹرمپ نے مشرق وسطی کے رویرا کی تخلیق کے طور پر بیان کیا ہے اس سے قبل ان کے داماد جیرڈ کشنر کے تبصروں کی باز گشت ہے جس نے کبھی عرب اسرائیل تنازعہ کو جائیداد کے تنازع سے زیادہ کچھ نہیں کہا تھا۔ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مشورہ دیا کہ اگر غزہ امریکی کنٹرول میں دوبارہ تیار کیا جائے تو موناکو سے بہتر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس وژن کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ فلسطینی رہنمائوں انسانی حقوق کے علمبرداروں اور یہاں تک کہ خلیجی ممالک نے بھی اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔اس تجویز کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں بہت سے لوگوں نے ٹرمپ اور کشنر پر انسانی حقوق پر رئیل اسٹیٹ کے منافع کو ترجیح دینے کا الزام لگایا ہے۔فلسطینی کبھی بھی رضاکارانہ طور پر نہیں جائیں گے۔ تو کیا ٹرمپ اس بار غزہ کو نسلی طور پر پاک کرنے اور جیرڈ کشنر کو جائیداد دینے کے لیے اسرائیل کے لیے ایک اور امریکی جنگ کی تجویز دے رہے ہیں؟سعودی عرب خطے کے ایک اہم کھلاڑی نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ریاض میں شاہی حکومت کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ اس کے بارے میں سوچا نہیں گیا اور اس پر عمل درآمد ناممکن ہے ۔ سعودی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرنے پر مزید زور دیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے غزہ سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس پر سخت ردعمل جاری کرتے ہوئے انہیں غیر منصفانہ اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے فلسطین پر پاکستان کے مضبوط موقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 1947 سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اب ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان پر امریکہ کو معافی مانگنی چاہیے دراصل ٹرمپ نے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والے کروڑوں مسلمانوں کو دکھ پہنچایا ہے اور صیہونی اسرائیل کے خلاف اس آزادی کی جنگ میں تقریبا تین نسلوں کو نقصان پہنچا ہے۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر