پشاور(کسوٹی رپورٹ)
نیو یارک میں مقیم پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار جہانگیر خٹک نے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان پر اس کے میزائل پروگرام کے حوالے سے پابندیوں کا اعلان کیا ہے ‘ اپنے چار سالہ دور میں جو اب ختم ہونے جا رہا ہے میں بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو سات بار نشانہ بنایا۔ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے پشاور میں گلوبل کنیکٹ فورم (جی سی ایف)کے زیر اہتمام امریکہ کی جانب پاکستان پر پابندیوں کے اعلان سے متعلق پاکستان کا میزائل پروگرام کیوں اہم ہے کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے، پاکستان کے ممتاز صحافی اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے سید محمد علی’ ڈاکٹر خالد خان’ پروفیسر ڈاکٹر گلزار جلال’ رضا رحمان قاضی اور امتیاز احمد علی نے بھی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر کوئی سودا بازی نہیں کی تھی اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکے کئے تھے اور اس بار بھی پاکستان امریکہ کی جانب سے براہ راست دھمکیوں کے باوجود اپنے میزائل پروگرام پر کوئی سودا بازی نہیں کرے گااور اس کی بنیادی وجہ اس پروگرام کا اپنے وسائل سے آگے بڑھانا اور خطے میں قیام امن کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سفارتی محاز پرامریکہ سے بامعنی اور تعمیری گفتگو کرنے کی ضرورت تھی اور ان کے خیال میں پاکستان سفارتی محاز پر ایسا نہیں کر سکا۔انہوں نے انکشاف کیا اور کہا کہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں اس کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں کیونکہ امریکہ اور چین میں تنائو بڑھا رہا ہے جبکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات قائم رہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو سیاسی دبائو میں لانا چاہتا ہے۔جہانگیر خٹک کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے ساتھ تعمیری بات چیت کرنے اور انہیں خطے میں بگڑتے ہوئے توازن سے متعلق قائل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان کو اپنی معاشی واقتصادی صورتحال بہتر بنانے اور عالمی اداروں پر انحصار کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
پاکستان کے ممتاز صحافی اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے سید محمد علی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے،جس کا بنیادی مقصد قومی سلامتی اور خطے میں امن کی ضمانت ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پریکطرفہ پابندیوں سے اس پروگرام پر کوئی فرق نہیں پڑے گااور پاکستان کے دفاعی و تزویراتی صلاحیت پر بھی اس کا کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔امریکہ اگرچہ سفارتی دبائو اور معاشی پابندیوں کے ذریعہ مختلف ممالک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے جو امریکی خارجہ پالیسی کا بھی دیرینہ اصول ہے۔سید محمد علی نے اس حوالے سے ہنری کسنجر کی ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی، صدر ضیا الحق، صدر غلام اسحاق خان کو بھی دبا ئومیں لانے کی کوشش کی گئی جبکہ وزرا اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بھی دھمکیاں دی گئیں، ایف سولہ کیلئے 658 ارب ڈالرز ضبط کر لئے گئے تاہم پاکستان نے اپنا دفاعی پروگرام جو بلاشبہ قومی سلامتی کیلئے ہے جاری رکھا۔
سید محمد علی نے کہا کہ اس طرح یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ نے پاکستان جس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو اپنے دفار اور قومی سلامتی کیلئے کسی دبا ئوکا شکار نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مزید واضح کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام یا میزائل پروگرام اس خطے میں علاقائی سالمیت اور بھارت کی جارحیت کے خطرے کا سدباب کیلئے ہے۔سید محمد علی نے کہا کہ امریکہ کو یہ بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ پاکستان کوئی دور مار میزائل بنا کر امریکہ یا کسی اور ملک کو قطعی نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتااس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی ڈپٹی نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو پاکستان کے سائنس دانوں کا سرمایہ افتخار قرار دیا۔سیمینار کے مقررین کا متفقہ خیال تھا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جسے اپنے دفاع کیلئے کسی کوشش سے روکا نہیں جا سکتا تاہم اس سلسلہ میں بین الاقوامی حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین سفارتکاری کے ذریعہ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔