پاکستان کا دارالحکومت دنیا کے شاندار شہروں میں سے ایک ہے اسے اپنے خوشگوار موسم اور خوبصورت ماحول کی وجہ سے ملک کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حکمرانوں کا شہر بھی ہے جو حکومت چلاتے ہیں مگر اس کی اانتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شہر کی مقامی پولیس دارالحکومت میں موبائل چھیننے اور دیگر جرائم پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 1.109 ملین سے زیادہ نہیں ہے لیکن ملک کے دیگر صوبائی دارالحکومتوں کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے یہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔رپورٹس کے مطابق رواں سال جولائی کے پہلے ہفتے میں موبائل چھیننے، کار جیکنگ، ڈکیتی اور گاڑیوں کی چوری سمیت متعدد جرائم رپورٹ ہوئے۔پچھلے سال 11,271 جرائم رپورٹ ہوئے جن میں 2,604 ڈکیتی، 1,398 چھینا جھپٹی، 885 چوری اور 1,849 چوری کی وارداتیں ہوئیں۔یاد رہے کہ کچھ عوامل جو اسلام آباد میں جرائم کی شرح میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں غربت اور زیادہ بے روزگاری شامل ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ انتشار کاشکار سیاسی نظام نے لاکھوں افراد کو غربت کی چکی میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں جرائم کی شرح اور بے روزگاری کی شرح کے درمیان براہ راست تعلق موجود ہے۔ جب بے روزگاری زیادہ ہوتی ہے، تو غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو تا ہے جو مزید غیر قانونی سرگرمیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ہفتے کے دوران لوگوں سے 4o سے زائد موبائل فون چھین لیے گئے ۔رواں ہفتے میڈیا کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سٹی پولیس نے ڈکیتیوں اور چھیننے کے درجنوں مقدمات بھی درج کیے اور اسی عرصے میں اغواء مقدمات مختلف تھانوں میں رپورٹ ہوئے۔مختلف تھانوں کی حدود سے کار جیکرز کی چوری ہونے والی گاڑیوں میں کاریں اور موٹر سائیکلیں شامل ہیں۔اس مدت کے دوران کراچی کمپنی، کوہسار، ترنول، کھنہ، انڈسٹریل ایریا، لوہی بھیر اور شہزاد ٹان تھانوں کی حدود میں جرائم پیشہ گروہ سب سے زیادہ سرگرم رہے۔اسی دوران مسلح افراد اور گاڑی چوروں نے تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے آٹھ موٹر سائیکلیں، تھانہ آبپارہ کی حدود سے موٹر سائیکلیں، کراچی کمپنی تھانے کی حدود سے پانچ موٹر سائیکلیں، تھانہ ترنول کی حدود سے پانچ موٹر سائیکلیں چوری کر لیں۔کراچی کمپنی تھانے کی حدود میں گزشتہ ہفتے کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے آٹھ موبائل فونز چھین لیے، آٹو چور چھ موٹر سائیکلیں اور ڈاکوں نے پانچ مقامات پر وارداتیں کیں، کار جیکنگ کی مزید سات وارداتیں، موبائل چوری اور ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی۔ تھانہ کوہسار ٹان کو اطلاع دی گئی، مسلح افراد نے سات موبائل فون چھین لیے، آٹو چور حدود سے پانچ موٹر سائیکلیں چوری کر کے لے گئے۔ تھانہ ترنول میں موبائل فون چھیننے کے تین، ڈکیتی کے تین اور کار چوری کے چار مقدمات تھانہ کھنہ میں رپورٹ ہوئے۔اسی طرح گزشتہ ہفتے انڈسٹریل ایریا تھانے کی حدود سے مسلح افراد نے سات موبائل فونز چھین لیے اور آٹو چور دو موٹر سائیکلوں کے ساتھ ساتھ دو کاریں بھی چوری کر کے لے گئے۔ تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے کار لفٹرز نے آٹھ موٹر سائیکلیں چوری کر لیں۔ وفاقی دارالحکومت اور اس سے جڑے شہر راولپنڈی کی حساسیت کے مطابق یہ اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں ۔ آجکل دارالحکومت کی پولیس پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنوں کے ساتھ مصروف ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی پولیس کے لیے یہ کوئی بہانہ نہیں ہونا ہے۔ درحقیقت تمام متعلقہ حکومتی اداروں کا اولین فرض ہے کہ وہ شہریوں کو ایسے مجرموں سے بچانے کے لیے لوٹ مار اور موبائل اور کار چھیننے کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ شہر اقتدار میں امن برقرار رکھنے میں دوبارہ ناکام رہی تو شہریوں کی حکومت پر خود اعتمادی مزید کم ہو جائے گی۔md.daud78@gmail.com