بڑی کابینہ

یہ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا ملک کے غریب صوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فوجی کارروائیوں سے متاثر ہوا ہے۔ یہ صورتحال عدم استحکام بے روزگاری اور معاشی بحران کو جنم دیتی ہے۔ لہذا اس صورتحال میں صوبے کو اپنے اخراجات کم کرنے اور ترقیاتی مد میں زیادہ فنڈز لگانے کی ضرورت ہے لیکن تقریبا ًایک سال سے صوبے کے غریب عوام کی بہتری کے لیے کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں کیا جا رہا ہے۔ایک پسماندہ صوبے کے ساتھ یہ ناانصافی ہے کہ اس کے قانون سازوں کو صرف مراعات اور زیادہ تنخواہوں سے دلچسپی ہے لیکن دوسری طرف انہیں عوام کی پریشانیوں، بے روزگاری اور بنیادی ضروریات سے کوئی سروکار نہیں۔ یاد رہے کہ کچھ روز قبل حکومتی بنچوں نے وزرا ء کی مرعات کا بل منظور کیا تھا جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی اور پھر حکومت نے وزیر اعلی کے غیر منتخب مشیر مزمل اسلم کو وزیر بنانے کا اعلامیہ جاری کردیا جو کہ آئین کی قانونی حدود کے خلاف ہے اس سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا جبکہ اس کی کابینہ کے ارکان کی تعداد 16 سے زائد ہے۔ اپوزیشن نے اس نوٹیفکیشن کی مذمت کی اور حکومت پر دبا ڈالا کہ وہ نوٹیفکیشن واپس لے جس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن رکن کے اعتراض کے بعد مشیر خزانہ کو وزیر کا درجہ دینے کا اعلامیہ واپس لے لیا۔اپوزیشن نے اعتراض کیا تھا کہ کابینہ کے ارکان کی کل تعداد حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 130 (9) کے تحت مشیر خزانہ کو وزیر کا درجہ دینے کا اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے بعد کابینہ کے ارکان کی کل تعداد 16 سے بڑھ کر 17 ہوگئی تھی۔آئین کے مطابق کابینہ کی تعداد 16 تک محدود ہے۔اپوزیشن رکن احمد کنڈی نے یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔وزیر قانون نے اس حوالے سے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس معاملے کے آئینی اور قانونی پہلوں کا جائزہ لیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی نے اس حوالے سے محکمہ قانون، ایڈووکیٹ جنرل اور وزیر قانون سے مشاورت کی اور انہیں بتایا گیا کہ کابینہ کی تعداد 16 تک ہے اور آئین کے مطابق کابینہ کی تعداد 16 سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔اجلاس میں بتایا گیا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 130 (9) کے تحت مشیر کو وزارتی درجہ دینے کا اعلان واپس کیا جاتا ہے اور اعلامیہ انتظامی طور پر جاری کیا جائے گا تو اس مشیر کی وزارتی حیثیت کا کابینہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جس پر حکومت کی جانب سے مشیر خزانہ کو وزیر خزانہ کا درجہ دینے کے سابقہ اعلان کو پلٹ کر ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے مشیر خزانہ کو وزیر کا درجہ دے دیا گیا۔ درحقیقت مذکورہ سیریز نے حکومت کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مثالی طور پر حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ کم مراعات لے کر اپنے اخراجات کم کرے اور ایک چھوٹی کابینہ کے ذریعے صوبے پر حکومت کرے لیکن یہ اپنی حد سے تجاوز کر رہی ہے جو تحریک پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہ تحریک انصاف کے اپنے منشور کی خلاف ورزی ہے کہ عوام کا پیسہ وزراء کی مرعات پر خرچ کیا جائے ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت اپنے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کی قیادت میں وفاقی حکومت کے خلاف ہر وقت ہڑتالوں میں ملوث رہتی ہے، یہ کسی بھی حکمران جماعت کے لیے سنجیدہ عمل نہیں ہے جو صوبے کے غریب عوام کے لیے انصاف کا دعویٰ کر رہی ہے اور اسکی قیات نے عوام کیساتھ غربت کے خاتمے اور معاشی حالات کی بہتری کے وعدے کر رکھے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس احتجاجی تحریک کے ساتھ ساتھ حکومت کو شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل پر قابو پانے کے لیے اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لئے کام کرے۔ خاص طور پر نئے ضم ہونے والے اضلاع، جہاں لوگوں کی زندگی کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں وہ غربت سرخ لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے اس لیے ان حالات میں صوبائی حکمران جماعت کو عوام کے لیے انصاف کے اپنے منشور کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed