جب ہم باہمی احترام کی بات کرتے ہیں تو اسے غیر مشروط ہونا چاہیے۔ اس قسم کی افہام و تفہیم میں دونوں فریقوں کو اپنے ملکوں کی خاطر کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے اور ان پر کوئی دبا ئو نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے اتحادی کسی بھی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مزید کا مطالبہ کر سکیں۔ لیکن جب ہم پاکستان امریکہ تعلقات کی بات کرتے ہیں تو درج بالا فارمولہ اتنا آسان نہیں ہے درحقیقت یہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔اگر ہم دونوں ممالک کی دوستی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو امریکہ ہمیشہ پاکستان سے زیادہ مانگتا ہوا پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے جب بھی امریکہ میںکوئی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ہمارے حکام نے ہر دور میں یہ بیان دیا کہ ہم امریکہ کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر دوستی جاری رکھیں گے۔ جیسا کہ گزشتہ روز پاکستانی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی دوڑ میں کامیابی کے ایک دن بعد پاکستان نے باہمی احترام اور ایک دوسرے کے ملکی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے۔ دوسری جانب مذکورہ سرکاری بیان سے ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس قسم کی کال موصول ہونے کے امکان کو مسترد کردیا ہے ۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے اور نہیں لگتا کہ ٹرمپ پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی کا مطالبہ کریں گے آئیے 15 سے 20 دن انتظار کریں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔
اسی ٹی وی شو کے دوران پی ٹی آئی رہنما ر ئوف حسن نے کہا کہ پارٹی کو کبھی امید نہیں تھی کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد عمران کو رہا کر دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی پارٹی میں ایسی کوئی بحث نہیں ہوئی۔اگر ان دونوں بیانات کو دیکھیں تو ان کی ٹائمنگ ایک جیسی ہے کہ ہمارے حکام اور حکومت حال ہی میں منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر ضروری دبا محسوس کر رہے ہیں کہ امریکہ صدر ایسا کوئی مطالبہ کر سکتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے بعض عہدیداروں یا حکومتوں نے ”جی جناب ”والا کردار ادا کیا جس پر سابق وزیراعظم عمران خان نے کئی بار تنقید کی اور ٹرمپ کے دور میں بھی وہ ایسے سخت بیانات دیتے رہے جس سے پی ٹی آئی کارکنان میں ایک بیانیہ بن گیاکہ بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان حکومت کو تحلیل کر دیا تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ نئے صدر عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔دوسری طرف پی ایم ایل این کی حکومت اس بیانیے کا مقابلہ کر رہی ہے لیکن وہ ایک ایسے معاملے میں بہت کمزور پوزیشن پر ہے جو ابھی تک نہیں ہوا ہے۔تو اس طرح کے بیانات پہلے سے پولرائزڈ سیاسی معاشرے میں مزید افواہیں پھیلائیں گے۔ اس لیے حکومت ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات بند کرے۔ درحقیقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں سیکیورٹی، سماجی ترقی، کاروبار وغیرہ سمیت مختلف شعبوں میں تعاون شامل ہے۔مندرجہ بالا بحث کے مطابق ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اب تک ہمارے پاس ایسی کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہیں ہے کہ ہم اپنے مفادات جیسے قدرتی گیس اور توانائی جو کہ ملک کی بنیادی ضرورت ہے کے لیے امریکہ مخالف کسی ریاست جیسے روس اور ایران کے ساتھ تجارت کر سکیں۔ اگرچہ پچھلے دو تین سالوں سے ہم ریاستی طور پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قطبی عالمی سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ لہذا نکتہ یہ ہے کہ حکام اور وزرا ء کو ایک فوبیا جیسے مسائل کے بجائے پاک امریکہ تعلقات پر مناسب توجہ دینی چاہیے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف ڈوبتی ہوئی معیشت کی بہتری اور بجلی اور توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچھے روابط کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ اگر شہباز اور کمپنی تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے اچھا کیس تیار کریں تو یہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پورے خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا لیکن یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہوہے جب پاکستان کے نئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوںگے ۔md.daud78@gmail.com