خیبر پختونخوا حکومت اور وفا ق کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے اگر چہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپیکرخیبر پختونخوا حکومت بابر سلیم سواتی کو اسمبلی ملازمین کے مرعات کے متفقہ قانونی سازی پر توصیفی خط بھی لکھا مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے گذشتہ روز ایک بار ملک بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں سینئر جج کو تعینات نہ کیا گیا تو پھر تحریک چلے گی جبکہ وفاق حکومت بھی اس احتجاج کے روکنے کیلئے تیار بیٹھی ہے تاہم اس دھینگا مشتی میںقومی املاک کو نقصان پہنچنے کیساتھ قیمتی انسانی جانوں کا ضیا ع ہو جاتا ہے جس کی روک تھام بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ملک مزید لاشیں گرانے متحمل ہو سکتا ہے ۔ گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے 26 ویں آئینی بر بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد عدلیہ پر حملہ ہوا ہے غیرقانونی آئینی ترامیم کے خلاف ہم آواز اٹھائیں گے یہ اپنی مرضی کے ججز تعینات کرکے مرضی کے فیصلے کریں گے مگر آئینی ترامیم ہم ختم کرلیں گے۔انہوں نے کہا کہ ثابت ہوگیا مبارک زیب کو ٹکٹ نہ دینے کا میرا فیصلہ ٹھیک تھا مبارک زیب نے بانی پی ٹی آئی کی تصویر لگا کر پارٹی کے ساتھ غداری کی باجوڑ کے لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ مبارک زیب نے آپ کا ووٹ نہیں آپ کا حق بیچا ہے۔ وزیراعلی کے پی کا کہنا تھا کہ جنہوں نے عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ان کو پارٹی سے نکالیں گے، ووٹ بیچنے والوں کے نام سامنے آئے ہیں جو غدار ہے اس کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں۔ علی امین نے مزید کہا کہ اس دفعہ ایک اور احتجاج کا پلان بنا رہے ہیں۔احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیلائیں گے اور میں قیادت کروں گا یہ مکمل احتجاج ہوگا اور پورے پاکستان کو بلاک کریں گے پرامن رہنا ہے سیاسی تحریک ہے اور سیاسی طریقے سے چلے گی۔ادھر وکلاء بھی احتجاج کے لئے پر تول رہے ہیں۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد نے کہا ہے کہ مولوی تمیز الدین کے وقت جسٹس منیر نے بدنام فیصلہ کیا جسٹس منیر کے خلاف کوئی ایک وکیل احتجاج کرتا تو آج کا دن دیکھنا نہ پڑتا۔کوئٹہ میں بلوچستان کے وکلا رہنما راجب بلیدی صدر ہائی کورٹ افضل حریفال کے ہمراہ پریس کانفرنس میں علی احمد کرد نے کہا کہ ملک میں بہت تیزی سے بڑی تبدیلی آ رہی ہے ۔اسلام آباد سپریم کورٹ میں حامدخان نے پریس کانفرنس کی ہے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار نے مزید کہا کہ وکلا نے آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جبکہ سیاسی جماعتوں نے آمروں کا ساتھ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ وکلا ایکشن کمیٹی کے 26 اکتوبر 2024 کے اجلاس میں لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔راحب بلیدی نے کہا کہ جنہوں نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی وہ ہماری تحریک میں شامل ہوں ترمیم کے بعد عدالتیں آئینی نہیں رہیں بلکہ سیاسی ہوں گی۔صوبائی حکومت اور وکلاء کے بعض رہنمائوں کی جانب سے عدلیہ کی آزاد ی کی باتوں میں کافی شدت پائی جاتی ہے تاہم انہیں ضرور سوچنا چاہیے گذشتہ دو سال سے جاری سیاسی انارکی نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا کیونکہ ملک کے معاشی حالات اس بے یقینی کی صورت حال کیوجہ سے درست نہیں ہو رہے ہیں اور سرمایہ کاری کمیشن بنانے کے باوجود سرمایہ کارملک کا رخ نہیں رہے جبکہ عوام کے فائدے کے منصوبے بھی رکے ہوئے ہیں یا پھر انہیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے ۔ لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اپوزیشن پر حملہ آور ہونے یا اپوزیشن حکومت پر حملہ آور ہونے کی روش چھوڑ کر قومی مفادات پر مبنی منصوبوں پر عمل در آمد یقینی بنائے تاکہ عوام کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری اور توانائی کے بحران کا ہے جس پر گذشتہ دو دہائیوں سے وہ کام نہیں کیا جاسکا جس کی ضرورت تھی یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہر شہری اپنی بنیادی ضروریات اور مسلسل بجلی و گیس کے حصول کے لئے سر گردان نظر آتا ہے جبکہ حکمران اور اپوزیشن لیڈر اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہاں پر نہ صرف حکومت پر حرف آتا ہے بلکہ اپوزیشن پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ وہ اسمبلی میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور احتجاج بھی کر رہے یا تو انہیں اسمبلیوں سے باہر آ جانا چاہیے یا پھر احتجاج ایوان تک محدود رکھ عوام مفادات بر مبنی منصوبوں کی تکمیل میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ کم از کم شہریوں کے مسائل حل ہو نا شروع ہو جائیں ۔ md.daud78@gmail.com