حکومتی اتحاد’ سیاسی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں کی آرٹیکل 63 نظرثانی اپیل کی حمایت’ صرف پی ٹی آئی کی مخالفت

وفاق میں اتحادی حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی نے سپریم کور ٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی، باقی تمام پارٹیوں اور وکلا تنظیموں نے بھی نظرثانی کی حمایت کی، صرف پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نظرثانی کی مخالفت سامنے آئی، آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت آج (بدھ تک) تک ملتوی کردی گئی۔ منگل کے روز سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل 5 رکنی لارجربینچ میں شامل ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی بینچ کا حصہ ہیں۔سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے جہاں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ پر اعتراض اٹھایا لیکن چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو بینچ پر اعتراض کرنے سے روک دیا تاہم عمران خان کے وکیل نے بار بار بات کرنے کی اجازت دینے پر اصرار کیا۔اس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آ رہی؟ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں تو آپ بھی خیال رکھیں، یہ طریقہ نہیں کہ آپ کسی اور کی باری میں بولیں، جمہوریت کا کبھی تو خیال کرلیں، آپ کو بعد میں سن لیں گے پہلے شہزاد شوکت کو بولنے دیں یہ آپ کے صدر نہیں ہیں؟ ہم آپ کو بھی سنیں گے جب آپ کی باری آئے گی، ابھی آپ بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اب کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، سپریم کورٹ میں اب جو کچھ ہوتا ہے سب کے سامنے ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے بنچ میں شمولیت سے معذوری ظاہر کی، میں نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، آج صبح نو بجے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس بلایا، کمیٹی نے جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کیا۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور کی عدم شرکت پر ان کے دفتر سے رابطہ کیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ میں شمولیت سے انکار کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، میں نہیں چاہتا دوسرے بنچز کو ڈسٹرب کیا جائے اس لیے جسٹس نعیم اختر افغان کو بنچ میں شامل کر لیا گیا، اب بنچ مکمل ہو گیا ہے کارروائی شروع کی جائے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی، 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی،21 مارچ 2022 کو پی ٹی آئی حکومت میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا جو چار سوالات پر مبنی تھا، 27 مارچ اس وقت کے وزیر اعظم نے ایک ریلی نکالی، یہاں چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے ہدایت کی کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔صدر سپریم کورٹ بار نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر ہوئی صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ اس وقت صدر مملکت کون تھے؟ جس پر شہزاد شوکت نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184 کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے، صدر سپریم کورٹ بار نے مزید بتایا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا؟ سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے، یہ تو تضاد ہے کیوں کہ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مقف اپنایا کہ ڈی سیٹ کرنا ہے یا نہیں یہ تو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کو فیصلہ کرنا ہے، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟، صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed