بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون مزید تیز کرنے کی ضرورت

 

پاکستان میں بجلی چوری کے خلاف حالیہ کریک ڈان ایک وسیع مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک قابل ستائش کوشش ہے تاہم اس آپریشن میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ اقدام ایسے وسیع مسئلے کو حل کرنے کیلئے ضروری تھا جس نے ملک کے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو طویل عرصے سے دوچار کر رکھا ہے۔ آپریشن کے دوران10,000 گرفتاریوں اور 23,152ایف آئی آر کرنے سے بجلی چوری سے نمٹنے کے لیے حکومت کا عزم واضح ہے جو توانائی کے شعبے کی سالمیت کو یقینی بنانے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔پاور ڈویژن کے سیکریٹری راشد لنگڑیال کا یہ انکشاف کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں چوری میں 75 فیصد حصہ رکھنے کے باوجود صرف 725 افراد کو پکڑا گیا، مزید ٹارگٹڈ اور علاقے کے لحاظ سے مخصوص نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ مجموعی تعداد اہم ہے لیکن جامع حل کے لیے مختلف صوبوں میں منفرد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ ادھر انفرادی طور پر برقی سپلائی کمپنیوں کی کامیابی کی کہانیاں مقامی کوششوں کی تاثیر کو مزید مستحکم کرتی ہیں۔ لیسکو کی 3.85 بلین روپے کی ریکوری اور حیسکو اور پیسکو کی جانب سے کافی گرفتاریاں اور ایف آئی آرز کا اندراج اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بجلی کی چوری سے نمٹنے کے لیے علاقائی حرکیات کو مدنظر رکھتے ہوئے موزوں طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ تاہم لیسکو اپنے فعال موقف پر قائم ہے جس نے بجلی چوروں پر 89.5 ملین روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے ہیں جو چوری کا پتہ لگانے والی ٹیموں، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے درمیان تعاون ایک مربوط اور جامع کوشش کی عکاسی کرتا ہے جو کسی بھی کامیاب کریک ڈائون کے لیے ضروری ہے۔ تاہم یہ اعلان کہ صرف 10 فیصد صارفین ہی بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں پر آئی ایم ایف کی عارضی ریلیف کے اہل ہوں گے تشویش کو جنم دیتا ہے کیونکہ زیادہ تر عام آدمی تک نہیں پہنچے گا۔ پالیسی سازوں کو ایک ہی وقت میں آبادی کے ایک بڑے طبقے پر مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے متبادل امدادی اقدامات کی تلاش کرنی چاہیے خاص طور پر بہت سے لوگوں کو درپیش معاشی چیلنجوں پر غور کرتے ہوئے۔جیسا کریک ڈائون جاری ہے اس کی رفتار کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مشتعل شہری انتخابات میں خلل نہ ڈالیں اور ماحول پر امن رہے۔ مسلسل کوششوں کے ذریعے ہی ریاست بجلی کے چوری کو ختم کر سکتی ہے اور مستقبل کے لیے ایک لچکدار اور پائیدار توانائی کے ماحولیاتی نظام کی تعمیر کر سکتی ہے تاہم اس کے لئے ابتداء بڑے بڑے اداروں اور مگرمچھوں سے کرنا ہوگی اگر صرف غریب افراد کی پکڑ دھکڑ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا تو پھر اس کی قسم کی کارروائیاں بھی عارضی ثابت ہوں گی جو سابق حکومتوں میں ہو تی رہی ہیں ۔ ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان کو مفت میں بجلی استعمال کرنے والے مراعات یافتہ طبقے پر کٹ لگانے کے لئے بھی از خود نوٹس لیکر عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عام شہریوں کے ذہنوں سے اعلیٰ حکام کے لئے یہ نفرت ختم ہو سکے کہ وہ انکے دیئے گئے ٹیکسوں سے مفت کی بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ یہان پر یہ احتیاط بھی کرنا ہو گی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مفت یونٹ یا انکی قیمت ملازمین کی تنخواہوں میں ضم کر دی جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بھی انصاف کا بول ہو نے کی بجائے الٹا اس کا نقصان ہو گا جس کے معاشرے پر اور بھی بر ے اثرات مرتب ہوں گے اور بدعنوانی و دھوکہ دیہی میں اضافہ ہو گا۔ امید ہے کہ اعلیٰ حکام شہریوں کیساتھ انصاف کا معاملہ کریں گے ۔ md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر