کازان میں افغان امن کے حوالے سے اکھٹ

 

روس کے شہر کازان میں افغانستان کے بارے میں کثیرالجہتی کانفرنس اس تنازعہ کے محرکین کے لئے چشم کشا ہونا چاہیے۔ چین، بھارت، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی اور ترکی کے نمائندوں اس حوالے سے جمع ہونے میں ایک مشترک عنصر پوشیدہ تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ زدہ ملک میں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے کابل میں انتظامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان ممالک کا اکھٹا ہونا در اصل چین کے مرہون منت ہے جو اس صدی کے اپنے عظیم منصوبے بیلٹ اینڈ روٹ اینشیٹو کو پر وان چڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ان تمام ممالک میں اتفاق پایا جاتا ہے ۔ کازان کا اجتماع امریکہ کی غیر موجودگی میں کافی قابل دید تھا حالانکہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام اور طالبان کے درمیان 2020 ء کے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد پر بہت زیادہ دبا ڈالا گیا تھا۔ اس نے علاقائی اتحاد کی طرف بھی بجا طور پر اشارہ کیا اور پریشان حکومت کو یہ احساس دلایا کہ بین الاقوامی تجارت اور تجارت کے لیے الگ الگ ریاست کی سرحدوں کو کھولنا کتنا ضروری ہے۔جس میں افغانستان بھی اہم کر دار ادا کر سکتا ہے ۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ عامر خان متقی اور اسی طرح افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے، سفیر آصف علی درانی اور دیگر معززین کی موجودگی کابل میں آخری ملاقات کے دوران طالبان کے عزم کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے ایک بہترین موقع کے طور پر آئی ہے۔ یاد رہے کہ ہفتہ پاکستان اور افغانستان کے جنوبی علاقوں نے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر دیکھی تھی جو دہشت گردی ٹی ٹی پی، آئی ایس اور القاعدہ کی باقیات کے دوبارہ منظم ہونے کی وجہ سے ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں اپنے ہم خیالوں کے ساتھ زبردست تعاون کیا ہے اور امن و امان کو ایک بار پھر دہشت گردی کے دھانے پر دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کازان اعلامیہ میں افغانستان میں موجود ایسے تمام عناصر کے خلاف بے ساختہ کارروائی کرنے، غیر قانونی انسانی سمگلنگ کو روکنے، منشیات کی پیداوار اور آزادانہ بہا ئو کو کم کرنے اور کابل میں ایک جامع حکومت بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس دوران یہ نوٹ کیا گیا کہ شاید افغان حکمرانوں کی جانب سے موثر اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں تاہم سستی کا یہ احساس ختم ہونا چاہیے۔ افغانستان میں موجود ہر قسم کے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنا اور ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ خطوں کے کھلنے اور معاشی منافعوں کا سلسلہ سرحدوں کے پار بہہ سکے نہ کہ مایوس افراد کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا جائے ۔ ادھر افغان حکومت کو دوحہ معاہدے اور کازان میمو کو دن کی روشنی میںکھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنا نفع و نقصان بخوبی معلوم ہو سکے ۔اس کے بر عکس اگر طالبان حکومت اپنی ضد و انا پر اڑی رہی تو وہ اپنی آنے والی نسلوں کے نقصان کی مرتکب ہو نے کیساتھ ساتھ خطے کی اقصادی حالت کو بھی مزید خراب کرنے کیلئے ذمہ دار ٹہرائے جائے گی ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنی محسن پاکستانی قوم جنہوں نے انجانے میں انہیں چندے بھی دیئے ہیں کی گردن پر پائوں رکھنے کی بجائے وفاداری کا ثبوت دیں اور پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے لئے پریشانی بڑھانے کی بجائے خطے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے چین کی وضع کر دہ پلان جس میں پورے خطے کی بھلائی ہے میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس کی مدد کر ے تو اس کے اپنے دن بھی پھر جائیں گے ورنہ جیسے ہی ڈالر موصول ہونا بند ہو جائیں گے اس کی معیشت مزید بیٹھ جائے گی۔ md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر