جنوری میں انتخابات کا عندیہ کیا رنگ لائے گا؟

 

 

غیر یقینی صورتحال کے باوجود کم از کم ایک تسلی بخش اقدام ہے کہ عام انتخابات کر وائے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قوم جنوری 2023کے آخری ہفتے میں انتخابات کی خوشخبری سنائی گئی ہے جو حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے ۔ اعلان کردہ تاریخ آئینی طور پر مقرر کردہ 90 دن کی مدت سے زیادہ ہے جس دن سے اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا ہے۔ تاہم انتخابی نگران حرکت میں نہیں آیا کیونکہ اس کے پاس قانون کی اپنی تشریح ہے اور اس کا استدلال ہے کہ مردم شماری کے نتائج کی باضابطہ اطلاع کے بعد انتخابی ایکٹ کے سیکشن 17(2) کے تحت حلقوں کی حد بندی کرنا اس پر فرض ہے۔ اس تعین نے اسے ایک بار پھر ایوان صدر سے متصادم کر دیا ہے جس نے رائے شماری کے لیے ممکنہ تاریخ 6 نومبر تجویز کی تھی۔ اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اسے آئین کے حکم کے مطابق بنانے میں کس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ حالات کی سنگینی جہاں تک انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اتار چڑھا ئو کو سمیٹ رہی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن)کے علاوہ تقریبا تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور 90 دن کی مدت میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ در حقیقت مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ انتخابات میں جتنی تاخیر ہو گی وہ اس کے ووٹ بینک کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ اس کی سولہ ماہ کی حکومت کے نتیجے میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ اس کو نگران حکومت کے کھاتے میں ڈالنا چاہتی تاکہ عام انتخابات کے لئے کوئی نہ کوئی بیانیہ تیار کیا جاسکے۔ ادھر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کا خیال ہے شاید مسلم لیگ(ن) کیساتھ ڈیل پکی ہو چکی ہے اس لئے وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے نعرے لگا رہی ہیں ۔ اسی طرح وکلا ء کی تحریک نے اس مطالبے میں ایک نئی تحریک پھونک دی ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہیں کہ ای سی پی کے ہتھکنڈے آئین سے انحراف کرتے ہوئے قانون کے پیچھے چھپنے کے سوا کچھ نہیں۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں یہ کس طرح کشش اختیار کرتا ہے اس کا اندازہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے کیونکہ معاشی بحران کے ساتھ سیاسی عدم استحکام سڑکوں پر مایوسی کا باعث بن رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ توانائی کے بے تحاشہ بل سیاسی اور انتظامی بغاوت کا باعث بن سکتے ہیں۔اس آزمائش کا تقاضہ ہے مہنگائی سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل نکالا جائے بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدالتی جائزہ لیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز، خاص طور پر ای سی پی اور سپریم کورٹ کے لیے کسی حل پر غور و فکر کریں۔ آئین کے مطابق یہ نوشتہ دیوار ہے لیکن اگر انتخابات کے انعقاد کا طریقہ کار عملی طور پر ناممکن ہے تو پھر ایک قانونی نتیجہ کو کوریوگراف کرنا ہوگا۔ اس اہم مسئلے پر عدم تعاون کا مزید الجھن اور افراتفری کا باعث بنے گا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ کا اعلان نہ کرنا بھی بہت سے خدشات کوجنم دیتا ہے کہ شاید حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اس لئے وہ دن و تاریخ نہیں مقرر نہیں کر رہی ہے تاکہ بوقت ضرورت اس کو مزید تاخیر کا شکار بنایا جاسکے تاہم اب یہ ایک ایسا معاملا ہے جس پر اس وقت تک بحث ہو تی رہی گی جب تک واضح اعلان نہیں کر دیا جاتا ہے ۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کی تاریخ بھی بتادی تاکہ کم از کم ایک بحث تو ختم ہو جائے اور سیاسی نظام آگے بڑھ سکے ۔ md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر