سفارتی فتح

 

جب چینی سفیر نے طالبان قیادت کو اپنی اسناد پیش کیں تو کابل میں خوشی کے لہر دوڑ گئی کیونکہ دو سال قبل جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو انہیں ہر طر ف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اور ہر طرف سے ان پر دبائو ڈالا جارہا تھا تاہم طالبان قیادت کی بہتر حکمت عملی کی بدولت وہ اپنا نظام چلانے میں کامیاب ہو گئے تو اب چین جیسے ترقیافتہ ممالک بھی ان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے میں دلی مسرت محسوس کرتے ہیں ۔یا د رہے کہ یہ اگست 2021میں طالبان کے کابل میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب کسی ملک کے سفیر نے افغان سر زمین پر قدم رکھا ہے ۔ یہ سفارتی کارنامہ بیجنگ کی جانب انجام دیا گیا ہے جس نے افغانستان کے لیے اپنے نمائندے کو مکمل سفیر کے طور پر نامزد کیا ہے جبکہ چین کے برعکس عالمی دارالحکومتوں کی طرف سے دیگر تمام سفارت کاروں کو فی الحال چارج ڈی افیئرزکے طور پر نامزد کیا گیا ہے یا مشیروں کی حیثیت سے تاہم چین کی کمیونسٹ ریاست کی جانب سے طالبان حکومت کو جزوی طور پر تسلیم کرنا ایک اچھا اقدام ہے۔ اس سے خطے میں امن و استحکام کی راہ ہموار ہو گی ۔ افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے ژا زنگ کی اسناد کو قبول کر لیا ہے جو سفیر وانگ یو کی جگہ آئے ہیں۔ ادھر اس حوالے سے افغان طالبان اور ان کے حمایتوں میںکافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک چین ہو سکتا ہے تاہم اب تک اس پر چینی حکام کی جانب سے خاموشی اختیار گئی ہے ۔ ادھر طالبان قیادت بھی اس پر زیادہ بحث نہ کرنے کو ترجیح دے رہی ہے تاکہ دنیا کے دیگر بڑی طاقتیں افغان حکومت کے قریب آسکیں ۔فی الحال ایسا ہو جاتا ہے تو یہ طالبان کے لئے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا ۔ طالبان کی نوزائیدہ حکومت کو بین الاقوامی مدد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک وجودی بحران سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ قوم کی تعمیر کے مشکل کام کو بھی نبھا رہی ہے۔ ادھر چینی پہلے ہی افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنی بی آر آئی کے زریعے دنیا اکھٹا کرنے کا ارا دہ ظاہر کر چکے ہیں اور اس مقصد کے تحت ہی جنگ زدہ ملک میں بے پناہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اسلئے چین کی جانب سے سفارتی رابطے بڑھانے کا یہ فیصلہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔ ادھر اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کو ان تمام خوفناک عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے پڑوسیوں کو مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہا جس میںپاکستان بھی شامل ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد تنظمیوں نے افغانستان کو اپنی محفوظ پناہ گاہ بنا رکھا ہے جس کے خلاف طالبان حکومت کارروائی کر تی ہے تو یہ یقینی طور پر گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا ۔ ادھر طالبان کو اپنے شہریوں کو مزید شہری حقوق دینا ہوں گے جن میں خواتین سرفہر ست ہیں خصوصی طور پر انہیں بنیادی و اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یورپ میں بھی ان کا سافٹ امیج ابھر کر سامنے آسکے( جہاں ان کی سب سے زیادہ مخالفت کی جاتی ہے) تاکہ وہ اپنے مندوبین افغانستان بھجوا سکیں ۔ اگر طالبان قیادت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ایک جانب ان پر پڑوسیوں کا اعتماد بحال ہو گا اور دوسری جانب مزید سفراکی کابل آمد ممکن ہو جائے گی۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر