بجلی کمپنیوں اور ریگولیٹرز کی طرف سے بجلی کی چوری سے نمٹنے کے لیے حالیہ اندرونی اور بیرونی کوششیں اب تک کے سب سے مضبوط اقدامات میں سے ہیں اور یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے جس کی تعریفیں ہو رہی ہے مگر اس کی ثمرات عوام تک پہنچائے بغیر ان اقدمات کو عارضی تصور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ملک کی تقریباً تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے ناقص کارکردگی اور بدعنوانی پر عملے کے خلاف بڑے پیمانے پر ردوبدل اور تعزیری کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ پاور ڈویژن کے مطابق وزیر اعظم کی کا کڑ کی ہدایت پر شروع کی جانے والی کارروائی کے دوران 1,914سے زائد افسران کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے جس نے سزا پانے والوں میں کچھ سینئر عملے کی بھی نشاندہی کی ہے لیکن ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ کچھ خبروں میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی چوری کی صرف 2,200 سرکاری رپورٹس موصول ہوئی ہیں جو کہ اس مسئلے کے حل کے پیش نظر مشکوک طور پر کم تعداد ہے کیونکہ یہ تعداد کیسی ضلعی کی تحصیل کے برابر بھی نہیں ہے ۔ دریں اثنا 1,955سے زائد بجلی صارفین کے خلاف بجلی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا اور 21کو گرفتار کیا گیا۔ جن افراد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں کئی منتخب عہدیدار بھی شامل ہیں جن میں کم از کم ایک صوبائی وزیر اور دیگر اعلی شخصیات شامل ہیں۔ صارفین کے خلاف کریک ڈان کے دوران 164ملین روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے گئے ہیں لیکن اب تک صرف 11 ملین روپے جمع ہوئے ہیں۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے جب ہم غور کریں کہ مالی سال 22 میںبل کی وصولی بمشکل 80 فیصد تھی۔حال ہی میں جاری کیے گئے حکومتی اعداد و شمار اور میڈیا رپورٹس سے حیران کن باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کے پی کے چار اضلاع بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک اور شانگلہ کے 100% صارفین بجلی کا کوئی بل ادا نہیں کرتے جب کہ پسنی گوادر میں تقریبا 90% لوگ بجلی بل نہیں دے رہے بلوچستان کے اضلاع مکران خضدار اور لورالائی میں بھی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ایک سال میں 77 بلین روپے مالیت کے 5.7بلین یونٹس کا کھونے کے ساتھ سرکاری خزانے پر سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔ دوسرے صوبوں کے کئی علاقوں میں بھی چوری کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں کیے گئے اقدامات کی سستی سیاسی پارٹی کی کمزوریوں کی عکاسی کرتی ہے یعنی تمام سابق حکومتوں نے اس بہتی کنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ۔اس سے افسوس ناک امر اور کیا ہو سکتا ہے کہ خود سابق وزراء اور وزیر اعلیٰ کے رشتہ دار اور خاندان بھی بجلی چوری میں ملوث رہے ہیں۔ ادھر انہی سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے خاندان و رشتہ دار وںکے کار خانوں و فرموں میںبھی پڑے پیمانے پر بجلی چور ی کی جاتی رہی ہے جس کی سرکاری سر پرستی کی جاتی رہی جس کے وجہ سے اب بجلی چوری ملک میں سب سے آسان کام بن گیا ہے اور اس ساری چوری چکاری میں بجلی تقسیم کرنے کی ذمہ دار کمپنیاں بھی ملوث رہی ہیں اس لئے ان کارروائیوں کے زریعے متعلقہ کمپنیوں کی گلو خلاصی نہیں ہو سکتی بلکہ ان افسران کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جو قومی خزانے کو سنگیں نقصانات پہنچانے میں ملوث رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کارروائیاں عارضی ثابت نہیں ہو نگی بلکہ انکا دائر ہ کار مزید وسیع کیا جائے گا۔ md.daud78@gmail.com