حضرت امام حسین (رض)

سید جاوید علی شاہ
ہجرت کے چوتھے سال شعبان کی5 تاریخ تھی کہ کاشانہ حیدری میں د ختر ختم المرسلین ۖسے ا یک بہادرشہسوار تولد ہوا مژدہ جانفزاہ بارگاہ نبوت میں عرض کیا گیا رحمت عالم نبی کریمۖ تشریف فرما ہوئے اور اپنے لخت جگر نور نظر کو اپنی آغوش رحمت میں محبت میں اٹھایا۔ معصوم بچہ اپنی پاک نگاہوں سے اپنے نانا حضورکے رخ زیبا کو دیکھ کر مسکرایا اور چشم نبوت ۖاس بچے کی جبین سعادت کو دیکھ کر روشن ہوگئی ، نبی کریم ۖنے اپنے نواسے کے کانوں میں جو آواز سب سے پہلے پہنچائی وہ اپنے رب قدیر کی کبریائی ، وحدانیت یاور عظمت کے اعتراف کی آواز تھی ۔ لب کی نرم ، نازک پتیوں کو شرما دینے والے ہونٹوں نے لب مصطفٰی کو چوما ، نبی کریم نے کھجور کا ایک دانہ چبایا اور اس کے ساتھ مبارک لعاب دہن مل کر اس معصوم کے منہ میں ڈال دیا ۔ بچے کا نام حسین رکھا گیا ۔یہ حسین رضی اللہ عنہ عاشورہ کے درخشندہ آفتاب اور کربلا کے دشت کا تشنہ لب شہیدوں کے امام عظیم پاسدار، ایمان و عقیدہ کی سرحدوں کے محافظ اور راہ حق کے باعظمت ، باوقار شہید آل رسول ۖکاوہ عظیم انسان جس نے اپنی ولا دت حیات مبارزہ اور شہادت کے ذریعے حریت قربانی ایثار ہمدری اور شرفو فضلیت کا عظیم درس دیا اور خود تاریخ عالم میں جہاد و شہادت کے نمونہ یکتا قرار پائے ۔ وہ عظیم شخصیت کربلا اور نوجوانان جنت کے سردار نواسہ تھا امام انبیاۖ فخر موجودات فخر مرسل ، محسن انسانیت اورانسان کامل حضرت محمد رسول اللہ کا جو نجات دہندہ ہیں، عالم بشریت کا جنہوں نے اپنی مقدس تبلیغ کے ذریعے دنیا کو جہالت و گمراہی سے رشد و ہدایت و نور و فضیلت کی طرف اور مادیت، مادی پرستی سیروحانیت اور انسانی شرافت کی طرف دعوت دی۔گویا آپ آئے نور آیا کیونکہ جہالت کی گھنگھورگٹھائیں سارے عالم کی فضاوں پر چھائی ہوئی تھیں۔توحید اور رب شناسی کی آوازیں خاموش تھیں۔تلواروںکی جھنکار اور بے گناہ زندہ درگور کی جانے والی بچیوں کی فریادوں اور نالوں کے سوا کچھ سنائی نہیںدیتا تھا ۔ فقر و فاقہ ، محرومیت جہالت دوسروں کی حق تلفی ،استحصال و قتل و غارتگری، بے حیائی ، لو ٹ کھسوٹ اور ایسی ہی دوسری صفات مذمومہ کی پور ے عالم پر بالعموم اور جزیرہ العرب پر بالخصوص حکمرانی تھی ۔ وہ رہبر عالم بشریت کے نجات دہندہ پیغمبر رحمت ۖ ، رحمت امین وحی الہیٰ تھے جس کے رسالت کے منکر بھی آپ ۖکے اخالق کریمہ اور بہترین امانت و صداقت کے قصیدہ گو تھے ۔ اس بشر کامل اور رہبر اعظم کا مبارک لعاب دہن حسین کی اولین خوراک تھی گویا حق گوئی، حلم ، شرافت اور امانت و صداقت حسین کی گھٹی میں شامل تھا۔ حسین فرزند تھا اس اسد اللہ کا جو ولیوں کے سردار ہیں وہ علی مرتضیٰ جس کی شجاعت کا ثانی نسل انسانی میں آج تک پیدا نہیں جس نے آغوش رسالت ماب ۖ میں پرورش پائی جو آپ سے کبھی جدا نہ ہوئے جو تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں آپ کے ساتھ شریک ہوئے ، تبوک جاتے ہوئے آپ نے مدینہ میں آپکو چھوڑ کر فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی مقام حاصل جو موسٰی سے حضرت ہارون کو حاصل تھی، جب ختم المرسلین ۖنے صحابہ کرام ، مہاجرین وانصار کو بھائی بھائی بنا دیا تو فرمایا علی تم میرے بھائی ہو ،وہ علی جو باب مدینہ العلم ہے جسکے عفو و درگذر کا یہ عالم تھا کہ اپنے قاتل کو شربت پیش کیا اور بدتمیزدشمن کے سینہ سے اٹھ کر کھڑے ہونا ہی اسد اللہ کا بے نظیر کارنامہ ہے ۔ امام بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ۖنے خیبر کے موقع پر ارشاد فرمایا میں کل اس شخص کو علم "جھنڈا ” اس کے ہاتھوں میں دونگا جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے ہیں او ر اس کے ہاتھوں اللہ فتح نصیب فرمائے گا ۔دوسرے دن نبی کریم نے پوچھا علی کہاں ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ انھیں آشوب چشم ہے۔حضرت علی کوبالیا گیا نبی کریم ۖ نے ان کی آنکھوں میں اپنا مبارک لعاب دہن لگا کر ان کے لئے دعا خیر کی اور انھیں جھنڈاعطا فرمایا ، حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں اس دن کے علاوہ انہوں نے کھبی بھی امارت کو پسند نہیں کیا،حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت علی نے قلعہ خیبر کا دروازہ پکڑ کر کھینچا اور زمین پر گرا دیا ،یہی دروازہ پھر ستر ادمیوں نے مل کر دوبارہ اسکی جگہ رکھا۔گویا حسین کو شجاعت، حوصلہ اور عالی ظرفی ورثہ میں ملی تھی ۔ حضرت امام حسین لخت جگر تھا اس دختر رسولۖ کا جسکی تربیت خود نبی کریم نے کی۔ حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے نبی کریم نے فرمایا مجھے اپنے اہل وعیال میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ ہیں جامع صفیر میں ہے کہ آپ نے فرمایا فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے ۔ جو انکی رضا کا سبب ہے وہ میری رضا کا سبب ہے ۔امام بخاری کے مطابق نبی کریم ۖنے فرمایا فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے ان کی ناراضگی کا سبب میری ناراضگی کا سبب ہے ۔ ایک اورروایت میں ہے جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ حضرت خاتون جنت فضائل اور نسب کے اعتبار سے اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے جدا ہیں بلند مرتبہ ہونے کے باوجود انہوں نے انتہائی فقرمیں زندگی بسر کی ۔ خاتون جنت جب بارگاہ رسالت ماب ۖ میں حاضر ہوتیں تو نبی کریم ۖ کھڑے ہوجاتے اور انکا یاتھ پکڑ کر اپنی مجلس میں بھی اٹھا لیتے ۔ عالمہ بدرالدین سبکی، عالمہ جلال الدین سیوطی، عالمہ بدرالدینزرکشی اور تقی الدین مقریزی جیسے محققین نے خاتون جنت کا تمام عورتوں سے افضل قرار دیا ہے ۔ جب آپ کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے خود غسل کیا اور وصیت کی کہ کوئی انھیں منکشف نہ کرے چنانچہ حضرت علی نے انھیں اسی غسل کیساتھ دفن کردیا۔ گویا کردارسازی کا سب سے بڑا جوہر صبر و رضامصائب پر برداشت ، عصمت و عفت اور زہد و تقو ی حضرت امام حسین کو اپنی ماں سے بدرجہ اتم ملا تھا۔بخاری شریف میں حضرت ابو بکر سے روایت ہے میں نے دیکھا نبی کریم کو منبر پر تشریف لاتے ہو ئے دیکھا کہ حضرت حسن بن علی آپ کے ساتھ تھے آپ کبھی صحابی کی طرف توجہ فرماتے تھے اور کبھی ان کی طرف اور فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوںکے درمیان مصالحت کرادیگا ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں نبی کریم ۖ نے فرمایا اے اللہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں اور اس سے محبت کرنے والے کو محبوب رکھتا ہوں نبی کریم ۖکے ارشاد کے بعد مجھے کوئی حضرت حسن سے زیادہ محبوب نہیں۔ روایات کے مطابق آپ نے 25 اور بعض کے مطابق آپ نے 10 پیدل حج کئے تھے ۔ شہادت حضرت علی کے بعد جب آپ مسند آرائے خالفت ہوئے تو 7 ماہ عراق، خراسان یمن ، حجاز وغیرہ کے خلیفہ رہے اور 40 ہزار ا فراد نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ پھر آپ نے جنگ کئے بغیر معاملہ حضرت معاویہ کے سپرد کیا اس خیال کے پیش نظر مسلمانوں کا خون نہ بہایا جائے ، بے نیازی اور دنیاوی سود و زیان سے بلند بھائی حسن کی رفاقت حسین میں راسخ ہوگئی۔کربلا کی اس شیردل خاتون نے بھائیوں، فرزندوں اور نور چشموں کی شھادت کے بعد امام حسین کے پسماندگانکی سرپرستی جس بہادرانہ انداز میں کیا تاریخ انسانی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس دلیر خاتون نے جس فصاحت و بالغت کے ساتھ کربال کے ریگزار سے لیکر کوفہ ، دمشق اور مدینہ منورہ تک مقصد حسینی اورتحریک حسینی کو بیان کیا اس سے حکومت وقت اور اس کے گماشتوں کو بر سر دربار لزرہ براندام کیا۔ مشہورمصری خاتون دانشور ڈکٹر عائشہ بنت الشاطی جو کہ قاہرہ یونیورسٹی سے فارغ ہیں اپنی کتاب زینب بطل کربلا کی عربی سے اردو ترجمہ ہندوستان میں بہار کے مقام پر زینب کربلا کی شیردل خاتون کے نام سے شایع ہوا ہے ۔ لکھتی ہے ” زینب بنت علی واقعہ کربلا کی مجاہدوں میں سے ایک ہیں اور وہ واحد خاتون ہیںجنھوں نے تمام مصائب و الم زحمت و تکالیف اپنے لئے خریدا اور برداشت کیا مگر آبروں پر ذرا برابر بھی خم نہ آنے دیا ۔ آپ نے واقعہ کربلا کے بعد بزرگ ترین ذمہ داری اپنے سر لی اور خوبی کے ساتھ اس سے عہدہ بر آ بھی ہوئی ۔ اس مختصر تعارف کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ایسے حسین کیسے دست ، دست یزید میں دیتے ۔ (کالم الحرم سکول مردان کے پرنسپل ہیں )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر