خیبر پختونخوا میں سرکاری سکولوں کے غیر تسلی بخش نتائج

کسی زمانے میں سرکاری ہائی و ہائیرسکینڈری سکولوں کا ایک نام ہوا کرتا تھا تاہم جب سے غیر سرکاری سکولوں کا رواج ہوا ہے اعلیٰ حکام سرکاری سکولوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ اس وجہ سے کوئی بھی شہری اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے سوائے ان شہریوں کے جو غربت کی لکیر سے انتہائی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ۔ سرکاری سکولوں کی حالت زار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے بچے غیر سر کاری سکولوں میں پڑھتے ہیں جس کیوجہ سے ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ یعنی جس طرح عام شہریوں کے دیگر مسائل پر ارباب اختیار توجہ نہیں دے رہے یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے آٹھوں تعلیمی بورڈز کے نتائج میں ایک بار پھر سرکاری سکول پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ پیسہ خرچ کرنے والے نجی تعلیمی ادارے آگئے نکل گئے ۔ خصوصی طور پر پشاور اور بنوں تعلیمی بورڈز کے تحت امتحان دینے والے ذہین بچوں و بچیوں کے والدین و اساتذہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے بچوں نے بہت زیادہ محنت کی تھی مگر ان کے نمبر قابلیت کے مطابق نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے بچوں کو ایمپرومنٹ کیلئے امتحان دینا ہو گا ۔ اکثر غیر یب طلباء بورڈ کی فیس بھر نے کی بھی سکت نہیں رکھتے اسلئے وہ اچھے نمبر حاصل کرنے کی خواہش کے باجود ایسا کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی تنائو کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ان دنوں ماہرین تعلیمی کی جانب سے سرکاری سکولوں پر تنقید کی جارہی ہے مگر اصل مسئلہ کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا ۔ یاد رہے کہ جب ملک میں اسی کی دہائی تک نجی تعلیمی اداروں کا رواج عام نہیں تھا تو سرکاری ادارے بالکل کو ٹھیک کام کر رہے تھے اور ان میں پڑھانے والی اساتذہ کرام کانام بہت عزت و احترام سے لیا جاتا تھا مگر جیسے جیسے غیر سرکاری سکولوں کا عفریت پھیلا نمبروں کی دوڑ بھی شروع ہو گئی اور نجی ادارے اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے چکر میں امتحانی مراکز پر اثر انداز ہونے لگے ۔ ان غیر سرکاری اداروں اور متعلقہ بورڈ زکے درمیان ہو نے والی ملی بھگت کی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے بچوں کے نمبر کم آرہے ہیں۔ در اصل یہ نام نہاد غیر سرکاری تعلیمی ادارے یا تو اپنے امتحانی مراکز حاصل کر لیتے ہیں جس میں ان کی مرضی کا سٹاف تعینات کیا جاتا جہاںنجی تعلیمی اداروں کے بچوں کو نقل کی آزادی ہو تی ہے یا تعلیمی بورڈز کے اندر بیٹھی کالی بھیڑوں کیساتھ ملکی بھگت کر لی جاتی جس کیوجہ سے ان سکولوں کے بچے نمبر زیادہ لیتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ہزار نمبر لینے کے باوجود ان بچوں کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر کوانگریزی تو آتی ہے مگر قومی زبان اردو نہیں آتی جبکہ انکی جنرل نالج اتنی خراب ہے کہ قومی ہیرو کا نام تک معلوم نہیں ۔ دوسری جانب سیاسی سفارش پر بھرتی ہونے والے اساتذہ جو آئے روز اپ گریڈیشن اور مرعات بڑھانے کے لئے سٹرکوں پر سیاست کرتے رہتے ہیں کی پڑھائی کا معیار انتہائی پست ہے ۔ یہاں پر ایک وضاحت کرنا ضروری ہے کہ سرکاری سکولوں کے فی میل سٹاف کی کار کر دگی مردوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے کیونکہ ان میں تھوڑا بہت خوف خدا موجود ہے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں تعلیمی بورڈز کی کابھیڑوں پر ہاتھ ڈالا جائے وہاں پر نجی سکولوں کی جانب سے نمبر خریدنے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے کہ ان کی انسپکشن کی بنیاد پر ان کی فیس مقرر کی جائے تاکہ ہر کوئی دکان کھول کر نہ بیٹھ جائے ۔ امید ہے کہ نگران وزیر تعلیم و دیگر اعلیٰ حکام اس پر بھر پور توجہ دیں گے اور کوئی ایسی پالیسی وضع کریں گے جس پر آنے والی حکومتیں قانون سازی کر کے اس کو عملی جامہ پہنا سکیں بصورت دیگر یہ معیار مزید گر جائے گا۔ md.daud78@gmail.com

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر