صوبائی دارالحکومت کی ناقص ٹریفک انجینئرنگ

اگر ہم میٹروپولیٹن سٹی پشاور کا جائزہ لیں تو اس میں غیر رجسٹرڈ آٹو ریکشوں اور موٹر سائیکل ریکشوں کی وجہ سے ٹریفک سے متعلق مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں جو کہ خیبر پختونخواٹرانسپورٹ اتھارٹی اور سٹی ٹریفک پولیس کی ناکامی ہے۔جب بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی)کا آغاز ہوا تو اس کے پیچھے مقصد کار فرما تھا کہ یہ نہ صرف عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں فراہم کرے گی بلکہ صوبائی دارالحکومت کے ٹریفک کا بوجھ بھی کر ے گی لیکن بدقسمتی سے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ٹریفک کا بوجھ تین گنا بڑھ گیا ہے اور ٹریفک انجینئرنگ وہی روایتی پرانی ہے۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پشاور میں تقریباً 43,759 مسافر گاڑیاں ہیں جن میں بسیں، منی بسیں، کوچز، ٹرک، وین، سٹیشن ویگنیں اور ٹیکسیاں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 50,000 آٹو رکشا بھی ہیں لیکن صرف 16,646 رجسٹرڈ ہیں۔ پشاور میں مسافر گاڑیوں کی کم از کم تعداد میں 526 بسیں، 1,146 منی بسیں، 4,069 کوچز اور مزید شامل ہیں۔پشاور میں مسافر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن متعلقہ محکموں کے پاس دیگر نجی گاڑیوں جیسے کاروں اور موٹر سائیکلوں کا ڈیٹا نہیں ہے۔صوبائی حکومت نے محکمہ ٹرانسپورٹ کو ہموار کرنے سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔حکومت نے ٹرائی وہیلر کی مفت رجسٹریشن کی اجازت دی، لیکن آدھے آٹو رکشوں میں دو سٹروک انجن لگے ہوئے تھے جن کی ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے اجازت نہیں دی گئی۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے درمیان شہریوں کو لائسنس جاری کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن دونوں اداروں کا شہر کی ٹریفک کی روانی کو کنٹرول کرنے سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ ہر قابل رسائی شخص ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کے بغیر لائسنس بنوا رہا ہے۔ ان بدتر حالات نے نہ صرف زیادہ لوگوں کو مزید رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ گاڑیاں سڑک پر لانے کی اجازت دی ہے بلکہ اس سے سڑکوں پر ہونے والے حادثات میںبھی اضافہ ہوا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل اور گاڑیوں کا رش عوام کے لیے مستقل درد سر بنتا جا رہا ہے۔ کارخانو مارکیٹ سے حاجی کیمپ تک کی مرکزی سڑک جو کہ دس سے پندرہ کلومیٹر لمبی ہے اور شہر کا اندرونی حصہ صبح سے شام تک گاڑیوں سے بھرا رہتا ہے۔ بعض اوقات رش اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ سڑکیں گھنٹوں بند رہتی ہیں۔اس لیے مندرجہ بالا ٹریفک مسائل پر قابو پانے کے لیے تمام متعلقہ محکموں کو سرجوڑنے کی ضرورت ہے اور شہر کی ٹریفک کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو ٹریفک پولیس اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی ٹیسٹ کے لائسنس بنانا بند کریں تا کہ رشوت خوری اور غیر قانونی کاموں میں ملوث افسران اور عملہ کو سزا دی جائے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمے کو شہر میں گاڑیوں لیز پر فروخت کئے جانے کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگرچہ کار لیز پر دینا مکمل طور پر بینکنگ اور ایف اے بی کو جوڑتا ہے لیکن حکومت کو قانون بنا کر ایک شرط لگانی چاہیے کہ ہر گاڑی لیز کے وقت ہی رجسٹرڈ ہو گی۔ اس طرح ایک طرف ریونیو اکٹھا ہو گا اور دوسری طرف یہ اقدام غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکے گا تاکہ مستقبل میں ٹریفک کی روانی میں مزید اضافہ ہو سکے۔شہر کی ٹریفک کا دوسرا مسئلہ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سے جڑا ہوا ہے کیونکہ شہر میں ہشتنگری، تہکال اور نحقی کے مقامات پر سڑکیں بہت تنگ ہیں جو آئے روز ٹریفک کی روانی میں خلل ڈال رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے مزید مقامات بھی ہوں لیکن سب سے بڑا مسئلہ روڈ بلاک ہونا ہے۔اس لیے میٹروپولیٹن سٹی کی ٹریفک مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام محکموں اور اعلیٰ افسران کا اپنی ذمہ داریاں نبھانہ ضروری ہے۔ امید ہے کہ وزیر ٹرانسپورٹ اس اہم مسئلے ایکشن لیں گے اور متعلقہ محکموں کے ساتھ اس اہم مسئلے کو اٹھائیں گے اور آئندہ صوبائی بجٹ میں سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لیے فنڈز کی منظوری دی جائے گی۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed

ای پیپر