رپورٹ محمد دائود ، شعیب جمیل ، عدنان خان
دنیا بھر کی طرح پشاور میں بھی انقلاب ایران کی 46 ویں سالگرہ پشاور میں ایرانی قونصل خانہ کے زیر اہتمام منائی گئی جس میں امام خمینی کی قیادت میں انقلاب ایران کے شہدا ء کو خراج عقید ت پیش کیا ۔ پشاور میں منعقد ہ تقریب کے مہمان خصوصی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی تھے ،ان کے علاوہ مشیر خزانہ مزمل اسلم ، مشیر مذہبی امور عدنان قادری ، مشیر اطلاعات بیرسٹرمحمد علی سیف ، افغان قونصل جنر ل حافظ محب اللہ شاکر ، رکن صوبائی اسمبلی ملک طارق اعوان ، سابق سپیکر و رکن صوبائی اسمبلی کرام اللہ چغرمٹی ، مولانا حامد الحق ،سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ ، ایرانی قونصل علی بنفشہ خواہ ، ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ڈاکٹر حسین چاقمی ، سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم خان ، صدارتی ایورڈ یافتہ صحافی امجد عزیز ملک ، سابق انٹر نیشنل سکوائش لیجنڈ احمد گل ، مولانا شعیب ،مولانا ارشد قریشی ،چائنہ ونڈو کی ڈائریکٹر ناز پر وین و دیگر اعلیٰ سرکاری حکام و جامعات کے پروفیسرز اورصحافیوں اور مختلف مکاتب سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔
اس موقع پر انقلاب ایران کی 46 ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا ۔ مہمان خصوصی سپیکر خیبر پختونخوا بابر سلیم سواتی نے اس مو قع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انقلاب ایران کے لئے امام خمینی کی قیادت میں ہونے والی جدوجہد سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ نے سخت پابندیوں کے باوجود اپنا لوہا منواتے ہوئے ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا ہے جو قابل رشک ہے کہ اتنے سخت حالات کے باوجود وہ اپنی راہ سے نئی ہٹی جس پر ہمیں اسے خراج تحسین پیش کر تے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب ایران کی قیادت پوری اسلامی دنیا کے لئے مشعل راہ ہے کیسے انہوں نے کسی کا انتظار کئے بغیر اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا جس میں انکی خواتین بھی انکے شانہ بشانہ رہیں جس پر یقینی طور پر یہ بہادر قومی داد کی مستحق ہے ۔قبل ازیں پروگرام کے آغاز پر دنوں ممالک کے ترانے سنائے گئے اس موقع پر حاضرین کا جذبہ حب الوطنی دیدنی تھا جبکہ اس موقع پر تپاک عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ قبل ازیں ایرانی قونصل جنرل علی بنفشہ خواہ نے اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ ہم آج رات انقلاب اسلامی ایران کی فتح کی 46 ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں-
ایک ایسا انقلاب جس نے ایران کے اندر بڑی تبدیلیاں لائیں اور علاقائی اور عالمی ںتبدیلیو پراثرانداز ہوا۔ چھیالیس سال قبل ایران میں بیسویں صدی کا سب سے بڑا انقلاب کامیاب ہوا اور ایرانیوں نے استعماری مداخلت اور داخلی جبر پر قابو پایا۔ درحقیقت ایرانیوں نے ایک ایسے جبر اور استبداد سے جنم لینے والی گہری شکایات کے خلاف انقلاب برپا کیا جو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام نہیں کرتا تھا۔ انہوں نے ذلت آمیز نیم استعمار کی وجہ سے پیدا ہونے والی شکایات کے خلاف بھی بغاوت کی جو ان کی عوامی اور حکومتی زندگی کے تمام پہلوں میں مداخلت کرتی تھی۔ ایران کے اسلامی انقلاب کو ہمارے ملک کی تاریخ کے اہم ترین سماجی و سیاسی ارتقائی واقعات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، جس نے اپنی فتح کے آغاز سے ہی کئی چیلنجز کا سامنا کیا، جو کہ تعمیر و ترقی کے خاطر ایرانیوں کی عظیم کوششوں کو روکنے کے لیے دوسروں کی طرف سے پیدا کیے گئے۔پھر بھی انقلاب کے پہلے دنوں سے درپیش بڑے چیلنجوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران ترقی کرنے میں کامیاب ہوا اور ایرانی قوم کی کوششوں، استقامت اور عزم کی بدولت صحت، تعلیم و خواندگی، سائنس و ٹیکنالوجی، انسانی حقوق، سلامتی اور دفاع جیسے مختلف شعبوں میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔
ایران اب نینو ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے بہت سے علوم میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔اس وقت ایرانی یونیورسٹیوں میں 32 لاکہ سے زائد طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے 50.20 فیصد خواتین ہیں، جو ایران میں اعلی تعلیم میں خواتین کی مثر شرکت اور قابل قبول صنفی توازن کی نشاندہی کرتی ہے۔ حکومت میں خواتین اور اقلیتوں کا حصہ، بڑے اور درمیانی سطح کے انتظامی کرداروں میں، حکومتی عمل میں تمام طبقوں کی شرکت کے لیے اپنائی گئی پالیسی کے تحت، نمایاں طور پر بڑھ چکا ہے۔گذشتہ چار دہائیوں کے دوران، ایران کے انسانی ترقی کے اشاریہ میں مسلسل بہتری آرہی ہے، جس کی وجہ غربت میں کمی اور چند سالہ ترقیاتی منصوبوں کی صورت میں سماجی انصاف کو بڑھانے کی پالیسیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے سڑکوں اور نقل و انتقال، صحت، تعلیم اور مواصلات جیسے شعبوں میں کلیدی بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا ہے اور انہیں خاص طور پر دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں وسعت دی ہے۔ایران میں ٹیکنالوجی کے تقریبا 10 ہزار کمپنیاں ہیں جنہوں نے سائنسی علوم کی اشاعت کے لحاظ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہت سے شعبوں میں ایران کی عالمی درجہ بندی کو بہتر بنایا ہے، اس قدر کہ بعض شعبوں میں ایران دنیا کیٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے۔
ایران علمی پیداوار میں دنیا کا دوسرا مسلم ملک ہے۔ ہمارا ملک اب کینسر اور اعصابی بیماریوں کے علاج کے لئے میڈیکل آئسوٹوپس کی پیداوار میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے اور نوجوان ایرانی سائنسدان حالیہ برسوں میں کم از کم 10 ملکی سیٹلائٹس کو مدار میں بھیجنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ سنگ میل خلائی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے اور نئی سرحدوں کی تلاش کے لیے ہمارے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سیٹلائٹس صرف ٹکنیکی کامیابیاں نہیں ہیں، بلکہ سائنسی ترقی کے لیے ہمارے عزم اور خلائی تحقیق کے میدان میں بین الاقوامی تعاون کے جذبے کی علامت ہیں۔ ایرانی حکومت کی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف قومی مفادات کا تحفظ، قومی سلامتی کو برقرار رکھنا اور اقتصادی سفارت کاری کو وسعت دینا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولی اور ذمہ دارانہ موقف کی بنیاد پر جو کہ علاقائی ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون پر مبنی ہے، خطے میں امن و استحکام کا دفاع اور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کو مزید گہرا کیا ہے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ ایک فعال، متحرک اور موثر خارجہ پالیسی کی روشنی میں، ایران نے بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں جیسے برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، ای سی او اور ڈی-8 کے ساتھ اپنے کثیرالجہتی رابطوں کو وسعت دی ہے، کیونکہ ہم سب کے لیے ایک مضبوط اور ترقی یافتہ خطہ چاہتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت آئین، ملکی قوانین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں میں درج انسانی حقوق کے لیے پرعزم ہے جس کا ایران ایک رکن بھی ہے۔ ان حقوق میں اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع کے انعقاد کا حق شامل ہے۔ تاہم، جیسا کہ بین الاقوامی قانون میں تسلیم کیا گیا ہے، ایران اپنے امن عامہ کو یقینی بنانے اور قومی سلامتی، صحت عامہ یا عوامی اخلاقیات، یا دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے خلاف کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ہمارا وژن تمام ممالک کے ساتھ متوازن سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنا ہے، جس میں باہمی تعاون، اجتماعی سلامتی اور علاقائی بحرانوں کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امریکہ کی غیر قانونی پابندیوں کے خلاف مزاحمت ہماری خارجہ پالیسی کی بنیادی حکمت عملی کے اجزا ہیں۔ جہاں تک مشرق وسطی کی صورتحال کا تعلق ہے تو فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں کے نسل کشی کو سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ ایک افسوسناک تاریخ ہے جو مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پیدا ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا بھر کے لوگوں کے حقوق اور تقدیر کے تحفظ کے لئے پرعزم ہے۔پشاور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصلیٹ جنرل نے گزشتہ ایک سال کے دوران اس صوبے کے معزز حکام کے ساتھ روابط اور تعاون کو بڑھانے کی کوشش کی ہے اور عزت مآب گورنر فیصل کریم کنڈی، اور وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کے قابل قدر تعاون سے اس صوبے کی معیشت، تجارت اور ثقافت کے شعبے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔پشاور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصلیٹ جنرل کو صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری اور نجی شعبے کے عہدیداروں کے ساتھ قریبی اور مسلسل تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کے مابین تجارتی لین دین اور اقتصادی تعاون کی سطح کو بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات اٹھانے اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے مقصد سے باہمی شناخت اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری پلیٹ فارم فراہم کرنے پر پہلے سے کہیں زیادہ فخر ہے۔واضح رہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے، اس سال بھی ہم کوشش کریں گے کہ پچھلے سال کی طرح اس صوبے کے اعلی سطح کے تجارتی وفد کو 2025 کی بین الاقوامی نمائش میں شرکت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران بھیجیں۔اس کے علاوہ، یہ قونصلیٹ جنرل اللہ کے فضل و کرم سے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود قیمتی دینی، ثقافتی، لسانی اور تاریخی مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا اور دونوں دوست اور ہمسایہ قوموں کے درمیان ایک دوسرے کو جاننے اور مزید تعاون کے مواقع فراہم کرے گا۔آخر میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنا کر اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے لیے تیار ہے۔ایک بار پھر، میں اس تقریب میں آپ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔