وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے پنجاب حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کوپی آئی اے خریدنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسے درست طریقے سے چلایا جائے تو اس سے منافع کمایا جاسکتا ہے،پی آئی اے کو اونے پونے داموں نہیں بیچیں گے، مجھے اسے ٹھیک کرنے کی نہیں بلکہ فروخت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی پی آئی اے کی نجکاری کا عمل میرے آنے سے 6 ماہ قبل ہو چکی تھا اور فریم ورک طے ہو چکا تھاجس میں تبدیلی کا میرے پاس کوئی اختیار نہیں تھا،جو لوگ آج تنقید کر رہے ہیں وہ خود بھی نجکاری کے وزیر رہ چکے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، پی آئی اے کا بیڑہ غرق کرنے میں تمام ادوار کی حکومتوں نے حصہ ڈالا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے رکن پنجاب اسمبلی شعیب صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ عبد العلیم خان نے کہا ہے کہ میرے پاس نجکاری، کمیونیکیشن اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے محکمے ہیں، اس وقت بیس سے پچیس محکمے نجکاری کے عمل میں ہیںجس میں پی آئی اے سر فہرست تھا ۔ جب میں نے حلف اٹھایا تو اس سے چھ ماہ پہلے پی آئی اے کی نجکاری کاپراسیس شروع تھاجس کے تحت پی آئی اے کا فریم ورک بنایا گیا اور یہ نگران سیٹ اپ میں بنا تھا ۔فریم ورک کے تحت پی آئی اے کے مجموعی 830ارب روپے کے خسارے میں سے 620ارب روپے کا خسارہ جو کمپنی ہولڈ کو بنائی گئی اس میں پارک کیا جاچکا تھا جس کے تحت اسے پی آئی اے کے ہوٹل او ر پراپرٹیز دی گئیں ،آپریشنل سیٹ اپ جہاز اور باقی چیزیں پی آئی میں رکھی گئیںاور 200ارب روپے کا خسارہ یہاں پارک کیا گیا ،میرے آنے سے چھ ماہ پہلے فریم ورک کے تحت سارا پراسیس چل چکا تھا اور میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تھا ، میرے پاس نجکاری میں تبدیلی کرنے کا کوئی ا ختیار نہیں تھا۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ عبد العلیم خان کاروبار بہت اچھا چلاتا ہے لیکن پی آئی اے اس سے نہیں چلے گا، میں ان کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں کہ پی آئی اے چلانا میرے ذمے نہیں لگایا گیا ،پی آئی اے جس حالت میں ہے اس کی فروخت میری ذمہ داری ہے ، پی آئی اے ٹھیک کرنے کی میری ذمہ داری نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کی نجکاری کرنی ہے کیونکہ غریب قوم محکموںکا خسارہ نہیں اٹھا سکتی ہم اس لئے انہیں بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے حوالے سے کچھ بھی میرا پلان کردہ نہیں ہے کہ میں نے اس کا یہ حال کر دیا ہے ، پی آئی اے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں میرا کوئی کردار ہے؟ بلکہ سارے اپنے اپنے گریبانوںمیں جھانکیں اوراپنا اپنا حصہ تلاش کریں کہ اس کا بیڑہ غرق کرنے میںکس کس نے کردا ادا کیا ہے، مجھے ان سب سے بہتر کام کرنا ہے ، اگر اسے ٹھیک کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ڈالی جائے گی تو اس کے بعد میرا احتساب ضرور کریں ، بیچنا اور خریدنا یہ الگ الگ باتیں ہیں، اگر میں اس کے بیچنے میں کوئی کوتاہی کروں تو ضرو ر سوال اٹھایا جائے ،میں اس کا خریدار نہیں ہوں ، خریدار آگے سے آنے ہیں۔جو قانون دیا گیا ہے اس کے تحت نجکاری کا عمل ہونا ہے ،میں اس سے ہٹ سکتا ہوں نہ اس میں تبدیلی لا سکتا ہوں ۔انہوںنے کہا کہ جو خود نجکاری کے وزیر رہ چکے ہیں وہ نجکاری کے بارے میں مجھے مشورے دے رہے ہیں، جب آپ خود وزیر تھے اقتدار میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے خود کیوں یہ کام کیوں نہ کیا ، آج جو مجھے مشورہ دے رہے ہو وہ اپنے دور میں اسے کر لیتے ،جو نجکاری کے وزیر رہے ہیں وہ مجھے مشورے دے رہے ہیں اور مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہیںنبھائی