شعیب جمیل
پشاور ہائیکورٹ نے حیات آباد سے لاپتہ 4 بھائیوں کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر ایس ایچ او حیات آباد کو تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ لوگوں کو ایسے اٹھایا جاتا ہے دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایسے لوگوں کو اٹھایاجاتاہواور پولیس کہے کہ ہمیںعلم نہیں ہے اتنی بڑی کارروائی ہوتی ہے اور پولیس کو علم نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا اگر پولیس ایمانداری کا مظاہرہ کریں تو ان کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا، زیادہ سے زیادہ ان کا تبادلہ کیا جائے گا لگتا ہے کہ ایس ایچ او حکومت کی نوکری کی بجائے کسی اور کے لئے کام کر رہا ہے کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور پر مشتمل سنگل رکنی بنچ نے کی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت میں درخواست گزارہ گلالئی الکوزئی کے وکیل نادر شاہ ، معظم بٹ، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سید سکندر شاہ اور پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزارہ کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ 6 ماہ قبل عثمان خان الکوزئی، محمد ناصر، عبدالوارث اور ظاہر شاہ الکوزئی کو حیات آباد سے مسلح افراد نے گھر سے اٹھا لیا جس پر مزکورہ درخواست دار کردی گی ہے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ پتہ نہیں چل رہا کہ انہیں کس نے اٹھایا ہے عدالت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ ان لاپتہ افراد کو بازیاب کراکر انکو پیش کریں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او حیات آباد سی ٹی وی فوٹیجز میں نظر ارہا ہے جسٹس اعجاز انور نے ایس ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قرآن پر حلف لے کہ درخواست گزار کو اپ نے نہیں اٹھایا، جس پر انہوں نے عدالت کوبتایا کہ مجھے توڑا وقت دیں، وکیل سے مشورہ کرتا ہوں، عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر تک ملتوی کردی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایس ایچ او نے عدالت کوبتایا کہ میں نے نہیں اٹھایا، اور نہ میں موجود تھا۔ جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ پھر آپ باہر کیوں گئے تھے جسٹس اعجاز انور نے اس سے استفسار کیا کہ آپ حلف اٹھائے گے؟