تحریر: عرفان اللہ جان
جمیل ولد سلیم کا تعلق باجوڑ کے مسیحی برادری سے ہیں۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں سینٹری ورکر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے اس کے 2 دن کا بچہ وفات پاگیا تھا۔ جس کی تدفین نے جمیل کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا تھا۔ ایک طرف غم تھا تو دوسری جانب بچے کی تدفین کےلئے سوچ وبچار نے مزید پریشانی سے دو چار کیا تھا۔ ایسے میں برادری کے دیگر لوگوں نے مشاورت کے بعد تدفین کے لئے 95 کلومیٹر دور ضلع خیبر پختونخوا کے ایک اور ضلع ملاکنڈ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ جمیل کہتے ہیں کہ میری تنخواہ 47 ہزار روپے ہیں۔ جس سے گھر کا خرچہ مشکل سے پورا ہو جاتا ہے ساتھ ہی بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں خاندان کے اندر فوتگی ایک بڑے مصیبت سے کم نہیں ہوتا۔
"فوتگی کے وقت نہ صرف تدفین کی فکر ہوتی ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کرنا پڑتاہے ، ایسے میں چندہ اور مخیر حضرات کی مدد پر اکتفا کرنا پڑتاہے۔ ضلع باجوڑ میں تمام مسیحی برادری کے لوگ صفائی کے کام یا وابستہ ہیں اور بہت کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ ان میں ذیادہ تر ڈیلی ویجرز ملازمین ہیں۔
ضلع باجوڑ میں مسیحی برادری 1980 سے مقیم ہیں۔ اس میں ذیادہ تر صفائی کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہاں ان کا بنیادی مسئلہ قبرستان کا نہ ہوناہے۔ مسیحی برادری اپنے پیاروں کی تدفین کےلئے میتیوں کو دوسرے اضلاع نوشہرہ ، ملاکنڈ ، تیمرگرہ اور دیگر اضلاع کے قبرستانوں میں لے جاتے ہیں۔ ضلع باجوڑ سابقہ فاٹا کا حصہ ہے جوکہ اب خیبر پختونخوا میں ضم ہوا ہے۔ سابقہ فاٹا کے دیگر اضلاع جوکہ صوبے میں ضم ہوچکے ہیں میں بھی مسیحیوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کا مسئلہ درپیش ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سات ضم اضلاع میں 3100 اقلیتی برادری کے لوگ اۤباد ہیں جس میں اکثریت مسیحی برادری کی ہیں۔
باجوڑ کے مسیحی برادری کے ایک اور بندے جمیل مسیح کی بھی بیٹی فوت ہوئی تھی جس کی عمر صرف 3 دن تھی۔ اس کو تدفین کے لئے ضلع باجوڑ کے قریبی ضلع لوئر دیر کے علاقہ تیمرگرہ کے ایک پہاڑی علاقہ لے جانا پڑا۔ تیمرگرہ ضلع باجوڑ سے 40 کلومیٹر دور ہے۔ جہاں پر جماعت اسلامی کے مقامی نمائندے نے پہاڑی میں جگہ دی ہے۔ تاہم وہاں پر جانا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ علاقہ پہاڑی ہے۔ تیمرگرہ کے قبرستان میں بھی جگہ پوری ہوچکی ہے۔
برادری کے ایک اور شخص مجید مسیح کی والدہ بھی ایک سال قبل فوت ہوئی تھی جس کو تدفین کے لئے سیالکوٹ لے جایا گیا۔ جس سے گاڑی والے نے 40 ہزار روپے کرایہ لیا تھا۔ مجید ایک ڈیلی ویجر ملازم ہے۔ مجید نے بھی اپنی دکھ بھری کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر باجوڑ میں قبرستان ہوتا تو ہمیں اپنی والدہ کو اتنا دور نہیں لے جانا پڑتا۔ انہوں نے بتایا کہ تیمرگرہ اور ملاکنڈ میں اجازت نہ ملنے کیوجہ سے اۤخرکار اپنے اۤبائی علاقہ سیالکوٹ لے جانا پڑا کیونکہ قریبی اضلاع ملاکنڈ اور تیمرگرہ میں تدفین کے لئے پہلے سے اجازت لینا پڑتاہے۔
ضلع باجوڑ میں اقلیتی برادری کی تنظیم (باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن ) کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی بار حکومت سے درخواستیں کی اور پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت 2019 سے 2022 کے عرصے میں کافی ملاقاتیں کیں لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس سے قبل کے حکومتوں کو بھی درخواستیں دی مگر کسی نے اچھا رسپانس نہیں دیا۔ ہمیں امید ہیں کہ موجودہ پی ٹی اۤئی کی صوبائی حکومت ہمارا دیرینہ مسئلہ حل کریگی۔
ضلع مہمند خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں سے ایک ہے جوکہ پاک افغان بارڈر پر واقع ہے۔ مہمند میں مسیحی برادری کے قبرستان کے لئے جگہ مل گئی ہے مگر چاردیواری نہیں ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے غلنئی ہیڈکوارٹر کے قریب پہاڑ کے دامن میں اۤٹھ کنال اراضی مسیحی برادری کی قبرستان کے لئے مختص کی تھی اور ان کی باقاعدہ دستاویزات بھی فراہم کردی گئی تھیں مگر چاردیواری نہ ہونے کیوجہ سے لوگ یہاں پر اپنی میتیں دفنانا نہیں چاہتے۔
اسی طرح ضلع خیبر بھی خیبر پختونخوا کا نیا ضم شدہ ضلع ہے اور پاک افغان سرحد پر واقع ہے۔ ضلع خیبر کے علاقہ جمرود میں مقیم مسیحی برادری کے ملک سیمسن مائیکل نے بتایا کہ انگریز سرکار نے 1909 میں سولہ ایکڑ اراضی مسیحیوں کے لئے قبرستان کے طورپر مختص کی تھی اور یہاں پر ڈیڑھ سو کے قریب ہی قبریں ہیں مگر باقی اراضی پر مقامی لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اراضی کی ملکیت واگزار کرانے کےلئے ضلعی عدالت میں کیس دائر کیا جاچکاہے۔
ضلع خیبر کے ایک اور تحصیل لنڈیکوتل میں مسیحیوں کے لئے قبرستان چھوٹا پڑ رہا ہے۔ سماجی کارکن ملک ارشد مسیح نے بتایا کہ ہم پرانے قبرستان کیساتھ متصل مزید اراضی کے حصول کےلئے تگ ودو کر رہے ہیں اور اعلیٰ حکام سے اراضی دینے کی درخواست کرچکے ہیں۔ کیونکہ ہمیں خدشہ ہیں کہ اۤنیوالے سالوں میں پرانا قبرستان پُر ہوجائیگا۔
خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع جوکہ پاک افغان بارڈر پر واقع ہیں، ان علاقوں میں مقیم مسیحی برادری کے لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہیں مگر سرفہرست مسئلہ قبرستانوں کا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابقہ معاون خصوصی برائے اقلیتی امور خیبر پختونخوا وزیر ذادہ نے اس حوالے سے بتایا کہ ضلع باجوڑ میں مسیحی برادری کے قبرستان کے اراضی کے حصول کےلئے ہم نے کام شروع کیا تھا اور ڈپٹی کمشنر باجوڑ کو بتایا تھا کہ ہمیں سرکاری اراضی فراہم کی جائے تو ہم قبرستان کا مسئلہ حل کرینگے مگر بدقدسمتی سے ہماری حکومت ختم ہوگئی۔ اب ہماری حکومت دوبارہ اۤگئی ہے اور موجودہ حکومت میں دوبارہ کوشش کرینگے کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہوجائے۔
وزیر ذادہ نے بتایا کہ سابقہ حکومت میں سوات میں مسیحی برادری کے لئے قبرستان بنایا تھا جس میں اب تدفین ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے مختلف منصوبے بجٹ میں رکھے تھے اور ان کے چیکس بھی تیار تھے مگر پی ڈی ایم حکومت نے ہمارے سارے منصوبے روکے اور ان کے لئے فنڈز ریلیز نہیں کیا تھا۔