رمضان المبارک کا ہر گزرتا دن عوام کیلئے مشکل ہو رہاہے جس کی بنیادی وجہ بازاروں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں ٹیکسز میں کیا جانے والا اضافہ ہے ۔ جس کی وجہ سے عوام کیلئے سحر و افطار میں کھانا کھانا ناممکن ہو گیا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ملک میں جاری بے روز گار کی لہر کے باعث شہریوں کو یوٹیلٹی بلوں نے سب زیادہ پریشان کر رکھا ہے ۔ بجلی کی قیمت میں آئے روز نئے ٹیکسز لاگو کرنے کی نت نئی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ گذشتہ روز ایک معروف ویب پیج نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی بلوں میں صارفین پر غیر مساوی ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جس کی عوام کو خبر تک نہیں ہے ۔ یہ انکشاف وفاقی ٹیکس محتسب کی انکوائری میں ہوا ہے جس کے مطابق صارفین خاص طورپر کم آمدنی والے افراد اپنے بجلی بلوں پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ بجلی بلوں میں صارفین پر غیر مساوی اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے نفاذ کا انکشاف ہوا ہے۔بجلی بلوں پر صارفین کی آمدن سے قطع نظر بجلی ڈیوٹی نافذ ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ صارفین خاص طورپر کم آمدنی والے افراد اپنے بجلی بلوں پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس پر بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ ان کی آمدنی قابل ٹیکس آمدنی کی حد سے نیچے ہونے کے باوجود ان پر مختلف ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔صارفین پر آمدنی سے قطع نظر یکساں بجلی ڈیوٹی (ای ڈی)کا نفاذ، ٹیکس دہندگان پر مالی طور پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہو اکہ صوبائی توانائی کے محکمو ں کی جانب سے بجلی ڈیوٹی میں بہت سے تضادات ہیں اور جمع شدہ فنڈز کا غلط استعما ل کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ وفاقی ٹیکس محتسب نیایف بی آر کو ہدایت جاری کی ہے کہ صارفین کو بجلی کے بلوں پرضرورت سے زیادہ ٹیکسوں سے بچانے اور بلوں میں ٹیکسوں کے نفاذ میں بہتری کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے۔صدر مملکت نے وفاقی ٹیکس محتسب کے کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے برقراررکھا ہے ۔ صدر مملکت نے ایف ٹی او کی ہدایت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جو شہریوں پر ٹیکسوں کے غیر منصفانہ بوجھ سے نمٹنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔یہاں پر سوال یہ ہے کہ صدر مملکت کی سابق اتحادی حکومت اور نگران حکمران حکومت کے دوران یہ ٹیکس عوام سے کیوں وصول کیا جاتا رہا ہے اور اس کی تلافی کیسے ہو گی ۔ اگر صدر مملکت کو اپنی رعایا کہ اتنی فکر لاحق ہے تو پھر انہیں مذکورہ وصول کیا گیا بجلی کے یونٹس میں ایڈ جسٹ کرنے کے احکامات بھی جاری کرنے چاہئیں ۔ ادھر بجلی کے بعد روز افزوں مہنگائی نے بھی عوامی تگنی کا ناچ نچا دیا ہے ۔ ملک بھر کی طرح رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں صوبائی دار الحکومت پشاور میں مہنگائی کا طوفان برقرار ہے پھلوں ، سبزیوں کے مہنگے داموں کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ لوکل گھی بیس روپے فی کلو مزید مہنگا کردیا گیا ہے۔ سات روز گرزرنے کے باوجود قیمتوں میں کوئی خاطر خواہ کمی نہ ہو سکی۔ ضلعی انتظامیہ پشاور دفاترتک رمضان المبارک میں محدود ہیں محکمہ خوراک مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ روزہ داروں کیلئے پھل ، سبزیاں ، گوشت ، مرغی کا گوشت خریدنا خواب بن گیا ہے ۔ سرخ پیاز شہر میں موجود ہی نہیں ہے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کی جانب سے فرضی کاروئیاں کی جا رہی ہیں تاہم اس کے بعد تاجروں کی جانب سے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا جارہا ہے جبکہ سرکاری نرخنامہ پر عمل درآمد نہیں ہو رہاہے ۔ اس صورت حال سے سفید پوش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے جس نے متعلقہ اداروں و اہلکاروں کی قلعی کھول دی ہے ۔ ایسی صورت حال میں صوبائی و ضلعی انتظامیہ کو محض فوٹو سیشن کرنے اور روز چھاپے لگانے کی ورش کیساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی بازار میں ایک بار کارروائی کر لی جائے تو وہ اتنی موثر ہو نی چاہیے کہ کم از کم آئندہ ایک ماہ تک کوئی اس خلاف ورزی نہ کر سکے اور جو مرتکب پایا جائے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ درحقیقت یہاں تو ایک روز سرکار کارروائی کرتی ہے اور اس کے اگلے روز پھر وہی دھندا شروع ہو جاتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نئی صوبائی حکومت سالہاسال سے چلے آنے والے اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ۔md.daud78@gmail.com