دنیا میں آئے روز شہریوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے نت نئی معاشی اصلاحات سامنے لائے جارہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں شہری آٹے کی ایک بوری حاصل کرنے کے لئے زندگی ہار دیتے ہیں اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے حکمران کسی شہزادی کی طرح یہ کہتے پھرتے ہیں” اگر روٹی میسر نہیں تو لوگ پیسٹری کیوں نہیں کھالیتے” اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے سیاست دان و آمر حکمران سات دہائیوں سے مسلط ہیں ۔ ان نا ہنجار اور نکمے حکمرانوں کی غلط کاریوں کی وجہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے گہرے ہوتے بحران نے لاکھوں لوگوں کو دسترخوان پر ایک وقت کا کھانا کھانے کی جدوجہد میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ آٹے ، گھی ، چینی اور دیگر ضروریات کے حصول کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں رمضان کے دوران کم آمدنی والے خاندانوں پر سے کچھ بوجھ اٹھانے کی کوشش میں صوبائی حکومتوں نے آٹے کے تھیلے تقسیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا مگر نا اہل انتظامیہ کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے کچھ حصوں میں غیر منظم تقسیم کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں اب تک کئی جانہیں ضائع ہو چکی ہیں ۔ بھر میں مفت آٹے پانے کی تگ و دو میں 6 جانیں جاچکی ہیں لیکن انتظامیہ آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار نہ بناسکی۔میڈیا پر آنے والی خبر وں کے مطابق
بھکر میں گھنٹوں قطار میں باری کا انتظار کرنے والا شخص دم توڑ گیا، مظفر گڑھ میں بھگدڑ بزرگ خاتون کی زندگی لیگئی جب کہ ملتان، فیصل آباد اور کوٹ ادو میں قطاروں میں انتظار کرنے والے 3 افراد دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ادھر چارسدہ میں دھکم پیل اور بھگدڑ میں ایک شہری جاں بحق ہوا۔اس کے علاوہ آٹا نہ ملنے پر پشاور میں بھی احتجاج کیا گیا، خواتین نے سڑک بند کردی جب کہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں آٹا نہ ملنے پر شہریوں نے نئے تعینات اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے احتجاج کیا، اس دوران ایک خاتون نے اسسٹنٹ کمشنر کی واسکٹ اتارلی جس پر اسسٹنٹ کمشنرکیگارڈ نے خاتون کو تھپڑ مارا تو شہری مشتعل ہوگئے اور اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی پر حملہ کردیا ۔۔ ادھر بنوں میں آٹے کی تقسیم سے قبل فلور مل کی بانڈری وال گرنے سے ایک اور شخص جاں بحق ہوگیا۔ جنوبی پنجاب کی تحصیل حاصل پور میں مفت آٹے کی تقسیم کے مقام پر بھگدڑ مچنے سے کم از کم پانچ خواتین زخمی ہو گئیں میرپورخاص میں سبسڈی والے آٹے کے سیل پوائنٹ پر بھگدڑ کے دوران ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ علاوہ ازیں مل مالکان نے ناکافی سپلائی کی وجہ سے پیداوار روک دی ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کا دعوی ہے کہ مل مالکان سبسڈی والی گندم کی سپلائی جمع کر رہے ہیں اور آٹے کی قیمتوں میں من مانی اضافہ کر رہے ہیں۔ مل مالکان اور حکام کے درمیان اس رسہ کشی کا خمیازہ عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ لوگ گندم جیسی بنیادی چیز حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہیں جس کی حکومت کو ضمانت دینی چاہیے۔پاکستان جو کبھی گندم میں خود کفیل تھا اور دوسرے ممالک کو اناج فراہم کرتا تھا اب کئی دہائیوں کی انتظامی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت کم از کم یہ کر سکتی ہے کہ لوگوں کو باوقار اور محفوظ طریقے سے آٹا فراہم کیا جائے۔ جھگڑوں اور المناک واقعات کو روکنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ تقسیم کی مہم چلائی جائے۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور آٹے کی قلت قحط اور بھوک کے خطرات کو بڑھا دے گی۔ حکومت مل مالکان کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹی اسٹورز اور ریٹیلرز کو مصنوعی قلت پیدا کرنے اور قیمتوں میں اضافے سے روکنے کے لیے مداخلت کرے۔ اس سنگین صورتحال کے دوران آبادی کے کم آمدنی والے اور کمزور طبقات کو تحفظ اور سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ تاہم اہم بات جس پر حکومت کی پکڑ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں جب ہر کوئی پائی پائی کا محتاج یہ سکیم شروع ہی غلط تھا بہتر یہ ہوتا اگر یہ رقم براہ راست بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحقین کو دے دی جاتی ،مگر وہاں بھی گریڈ انیس کے افسران غریبوں کا یہ حق مارنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ایسی صورت حال میں غریب بے چارہ جائے تو کدھر جائے اس ملک کا اب اللہ ہی حافظ ہے ۔ md.daud78@mail.com