سپریم کورٹ انتخابات کروانے میں کامیاب ہو جائے گی ؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے اچانک لیکن بہت زیادہ متوقع فیصلے نے گیند سپریم کورٹ کے کٹہرے میں ڈال دی ہے۔ یہ اقدام خود بخود غیر آئینی ہے اور عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کے مطابق توہین عدالت ہے۔ اس کے آنے والے دنوں میں سیاسی صورت حال پر اثرات مرتب ہوں گے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ سپریم کورٹ انتخابی نگران ادارے کے انتخابات کو آئینی حد سے تجاوزکے طور پر ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے گی جس سے اختیارات کے استعمال کا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ یہ پریشان کن صورت حال پارلیمنٹ کے جاری مشترکہ اجلاس میں بھی زیر بحث ہے لیکن اگر اس بحث کا کوئی معیار مقرر کیا جائے تو اس صورت میں حکمران اتحاد اس قدر منقسم ہے کہ کوئی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی کتراتا ہے۔ جیسا کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ آیا حکومت سپریم کورٹ کے 30 اپریل کو انتخابات کرانے کے فیصلے کی پاسداری کرنا چاہتی ہے؟ انہوں نے سوال کیا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کیوں نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہاں ایک کنونشن بھی موجود ہے ۔ در اصل انہوں نے ایسا کہہ کر فیصلہ سازی کے عمل کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عوامی نمائندوں اور سٹیک ہولڈرز کو پارلیمنٹ کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اب امکان ہے کہ حکومت کو آئین کے واضح طور پر بیان کردہ احکامات کے ساتھ تنازعہ میں ڈال دیا جائے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر کثیر جماعتی اتحاد کا ٹوٹنے کا خدشہ کیونکہ آئین کی تشریح پر یہ جماعتیں پہلے ہی منقسم ہیں اس لئے جب اسکے بیان کر نے کا وقت آئے گا تو شاید پھر یہ اتحا د بھی نہ رہے ۔اگرچہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218(3) کے تحت اپنے کیس پر بحث کرتا ہے جسے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 58 اور سیکشن 8(c) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ شایدوقت کے اس مرحلے کو ان طاقتوں کو استعمال کرنے کو بدنیتی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور انتخابی نگران کسی مجبوری کے تحت پنجاب میں یکطرفہ طور پر 8 اکتوبر کو انتخابات کی تاریخ تجویز نہیں کر سکتا۔ واضح رہے کہ انتخابات میں تاخیر کی صورت میں عدالت مداخلت کرے گی اور یہ معاملہ جلد ہی ہتھوڑے کی زد میں آئے گا کیونکہ پی ٹی آئی نے غیر آئینی اقدام کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے اور پورے الیکشن کمیشن کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جس کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ عدالتی و سیاسی جنگ اب مزید شدید ہونے والی ہے ۔یقینی طورپر اب رمضان المبارک کے بعد میدان سجے گاجس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی سڑکوں پر آنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ ادھر اس کے سیکڑوں حامیوں کی گرفتاری کے ساتھ، توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جس سے حالات مزید بگڑیں گے اور یہ انتظامیہ و سیاسی جماعتوں دونوں کے لیے پریشانی کا باعث ہو ں گے ۔ اب لگتا ہے یہ مساوات سنگین نتائج سے بھری ہوئی ہے گویا عدالتی مداخلت اور اس کے بعد کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی کوئی مہم جوئی مکمل افراتفری کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر اس طوفان بدتمیزی سے کسی بھی قیمت پر گریز کیا جانا چاہیے اور جب چیزیں ٹھنڈی ہو جائیں تو ایک سازگار معاہدہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو قانون کی حکمرانی اور ملک کے مفاد کی خاطر لچک کا مظاہر ہ کرنا ہو گا بصورت دیگر ایک بار حالات ہاتھ سے نکل گئے تو پھر بچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ ۔md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed