جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے مزید آفات کا خدشہ !

 

جنگلات کو عام طور پر زمین کے پھیپھڑے تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے، کاربن کو الگ کرنے اور جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اسے صاف کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ مزید برآں وہ نامیاتی نشوونما کو فروغ دے کر اور جانداروں کے لیے قدرتی رہائش فراہم کر کے خطے کی مجموعی حیاتیاتی تنوع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ آب و ہوا اور مٹی کے کٹا ئو سے بچانے میں بھی مدد کرتے ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی کم کرتے ہیں۔یہ جنگلات کو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک انتہائی اہم اثاثہ بناتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمی حالات کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ مگر افسوسناک امر یہ کہ جنگلات کی ضرورت اور ان پر انحصار کے باوجود ان جنگلات کی غیر منظم کٹائی ان کی کمی کیساتھ ساتھ آب و ہوا کی خرا بی کا سبب بن رہی ہے ۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی ملک میں ہر سال خشک سالی کا بھی سبب بن رہی ہے اور اس نے جنگلات کو خطرناک حد تک ختم کر دیا ہے۔ حالیہ آفات جیسے کہ 2022 ء کے سیلاب نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے ۔ حال ہی میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگلات کی کٹائی کی شرح جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور ملک کے جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر خطے کے ممالک کی جانب سے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ نہ روکا گیا اور نئے درخت نہ لگائے تو یہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے ۔ ادھر بہت سی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر شجر کاری کے پروگرام کامیابی سے چلائے ہیں لیکن جنگلات کی کٹائی کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے جس کے لئے سخت قانو ن سازی اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں جنگلات کومحفوظ بنانے کے لئے ماہرین کی صلاح یہ ہے کہ حکومت درختوں کی کٹائی کو منظم کرے اور ملک گیر جنگلات کے منصوبے بنائے تاکہ جنگلات لگانے اور اس کی کٹائی کا کام صرف اور صرف حکومت کی نگرانی میں کیا جائے مگر ہمارے ملک میں سب اس کے الٹ ہورہا ہے ۔اگرچہ ملک میں انگریز کے دور سے محکمہ جنگلات قائم ہے اور جنگلات کی حفاظت کے لئے گارڈز بھی موجود ہوتے ہیںمگر ان کی صلاحیت اتنی نہیں کہ وہ ٹمبر مافیا کا مقابلہ کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ٹمبر مافیاز بلا روک ٹوک کام کرتے رہتے ہیں اور قیمتی قدرتی رہائش گاہوں کو تباہ کرتے ہیں جب کہ لوگوں کو ان کی زمینوں سے زبردستی نکال دیتے ہیں۔ اگر جنگلات میں ہونے والی اس تخریب کاری پر پابندی نہیں لگائی گئی تی رہے سہے جنگلات بھی نیست و نابود ہو جائیں گے ۔ ماہرین کے مطابق جنگلات کی کٹائی کے غیر قانونی طریقوں کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔ درختوں کی کٹائی پر ٹیکس بڑھا کر ٹمبر مافیا کا احتساب شروع کیا جائے۔ مزید یہ کہ سالانہ طور کاٹے جانے والے درختوں پر سخت پابندی عائد کی جانی چاہیے۔مثالی طور پر اس طرح کے منصوبے کو ہر صوبے کے جنگلات اور جنگلی حیات کے محکموں اور موسمیاتی تبدیلی کے محکموں کے ساتھ مل کر انجام دے سکتے ہیں۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف سابق حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے کا احتساب کیا جائے بلکہ اس کو مزید بہتربنایا جائے کیونکہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہ ایک بہترین منصوبہ تھا جس کے بہت فواد بھی ملے ہیں اور کئی مقامات پر جنگلات میں اضافہ ہو ا جس کی تصدیق بین الاقوامی اداروں نے بھی کی ہے ۔ اس لئے ماہرین کو اس منصوبے کو مزید بہتر بنانے پر کام کرنا ہو گا اگر اس کو جاری نہ رکھا گیا تو آنے والے وقتوں میں ہمیں مزید طوفانی بارشوں و سیلابوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔md.daud8@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed