غریبوں کو چار ہفتے بعد پیڑول پر سو روپے کی سبسڈ ی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی تعریف بنتی ہے تاہم یہ عارضی اقدام عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے کافی نہیں ہے اس لئے اس کو ایسے مزید اقدامات کرنا ہو ں گے تاکہ مہنگائی کو قابو کیا جاسکے۔ غریبوں کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 روپے کی کمی کے لیے مشکلات کا شکار اتحادی حکومت کے فیصلے نے خاص طور پر 800cc سے کم موٹرسائیکل، رکشہ اور کاریں چلانے والوں کو اچھی خبر دی ہے تاہم یہ اعلان پیٹرولیم مصنوعات میں 13 روپے فی لیٹر کے ایک اور ہوشربا اضافے کے پس منظر میں کیا گیا ہے ۔ مگر اب بھی بہت سے لوگ اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور بہت سے ماہرین اس بات کا یقین نہیں رکھتے ہیں کہ یہ کیسے لاگو کیا جائے گا کیونکہ اس ریلیف کو عملی بنانے کے لیے شاید ہی کوئی اعدادوشمار یا کوئی ارتقائی طریقہ کار حکومت کے ہاتھ نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پیٹرول سٹیشنوں پر عوام کو لگا تا دوڑانا ہی حکومت کا واحد مقصد ہے کیونکہ جب یہ سبسڈی والا پیٹرول بیچنے کا سلسلہ شروع ہوگا تو آٹے ، چینی اور گھی کی طرح اس کے لئے بھی لمبی لمبی قطاریں لگ جائیں اور یہ بھی بعید نہیں کہ سبسڈی والا پیٹرول میں سرمایہ دار ڈکار جائیں جیسا وہ چینی و آٹے کیساتھ کر تے رہے ہیں ۔ عارضی طورپر تو شاید حکومت کا یہ اقدام اچھا ہے ۔مگر اس کے پاس اس کی کوئی ڈیڈ لائن ہے کہ وہ کب تک یہ پیڑول فراہم کرے گی اور اگر کرے گی تو آئی ایم ایف یا دیگر ڈونر اداروں کو اس کا کیا جواز فراہم کیا جارہا ہے کہ حکومت یہ سبسڈی کہاں سے دے رہے ہیں ۔ اس لئے اس اچھے اقدام کی تعریف بھی عارضی طور کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی کوئی گائرنٹی نہیںکہ یہ پیٹرول غریبوں کو ملے گا جس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس لئے معاشرے کے نظر انداز اور کم آمدنی والے طبقات کو سبسڈی اور ریلیف دینے کی خواہش کو سراہا گیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ آخر ان عارضی اقدامات کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا کیونکہ ماہرین اور عوام جانتی ہے کہ اس سبسڈی سے مہنگائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ حکومت کو اس کی بجائے چھوٹے پیمانے پر کاروبار اور روز گار کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے مگر عشروں سے دی جانے والی اس تجویز پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے بلکہ در آمد شدہ سوچوں پر تجربات کئے جاتے ہیں جو اکثر ناکام ہو جاتی ہیں ۔ اگر سبسڈ ی مستقل حل ہو تا تو ترقیافتہ ممالک اس پر تنقید نہ کر تے بلکہ غریب ممالک کی مدد کرتے مگر ایسی حرکتیں کرنے سے قوم پر قرض در قرض چڑھانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس لئے ہی بین الاقوامی قرض دہندگان اس قسم عارضی اقدامات پر سوال اٹھاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس مقصد کے لیے پہلے بھی قائم کیے گئے یوٹیلیٹی سٹورز اور خراب ہونے والی مصنوعات کے لیے خصوصی سبسڈی والی مارکیٹیں زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضروری اجناس کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی مقداری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور ساتھ ہی ذخیرہ اندوز اور مفاد پرست بھی عوام کا حصہ چرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پیٹرول کے معاملے میں اس کے طریقہ کار پر عمل درآمد تصور سے باہر ہے اور حقیقی طور پر ناممکن ہے۔ پھر لاقانونیت کا خدشہ ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو لفظی طور پر عدم برداشت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ حاصل اور نہ ہونے کے درمیان فاصلہ سکڑ رہا ہے اور اس کے سنگین نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ افراط زر سے وقفہ لیا جائے اور اس میں کمی کی جائے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز، لیویز اور سرچارجز میں منطقی کمی کا یقینا تمام اشیا پر برف کے گولے کا اثر پڑے گا کیونکہ قیمتوں میں کمی خود بخود ہو جائیگی۔md.daud78@gmail.com