دنیا میں حقیقی مساوات کی ضرورت! ترقیافہ ممالک عام طور پر اپنی اقتصادی ترقی کے لیے اپنی جی ڈی پی کو دیکھتے ہیں لیکن متاثر کن اعدادوشمار ضروری نہیں کہ معیشتوں کی حقیقی تصویر دکھائیں۔ مختلف سروے اور رپورٹس پہلے ہی پوری دنیا میں موجود گہری تقسیم کو اجاگر کر چکے ہیں۔ حال ہی میں جاری کی گئی عالمی عدم مساوات کی رپورٹ 2022 ء نے ایک بار پھر پالیسی سازوں کی توجہ وسیع پیمانے پر مساوات کی طرف مبذول کرائی ہے جس کے مطابق آمدنی میں عدم مساوات، صنفی عدم مساوات، دنیا میں آلودگی کہ ذمہ داری کاربن گیس خارج کرنے ممالک میں پائی جانے والی عدم مساوات اور دولت کی عدم مساوات سر فہرست ہے ۔ مذکورہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی 50 فیصد آبادی اپنی دولت کے صرف 2.0 فیصد پر قابض ہے، جب کہ اوپر کی 10 فیصد آبادی 76 فیصد پر قابض ہے۔ یہی صورت حال آمدنی کی بھی ہے جس کے مطابق 50 فیصد آمدنی کا 8.5 فیصد اور 10 فیصد 2.0 فیصد لے رہے ہیں۔ جہاں تک صنف کا تعلق ہے، خواتین عالمی لیبر فورس کا 35 فیصد حصہ ہیں جبکہ مرد 55 فیصد ہیں۔ اور کاربن کے اخراج کے لحاظ سے48 فیصد کرہ ارض کے 10 فیصد امیر ترین افراد یا ممالک پیدا کرتے ہیں۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیات نے سماجی اخراجات کے ساتھ اس عدم مساوات کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔ 1910 اور 1980 کے درمیان، عدم مساوات کی سطح میں کمی آئی کیونکہ دنیا نے ترقی پسند ٹیکسیشن اور دیگر اقدامات متعارف کروائے جن کا مقصد عدم مساوات کو کم کرنا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام پیش رفت الٹ ہو گئی ہے۔جس کے بارے اسلام پندر ہ سو سال اپنے خدشات کا اظہار کر چکا ہے کہ دنیا کی بقا دولت کا ارتکاذ میں نہیں بلکہ اس کی تقسیم میں ہے مگر کپیٹل از م اس کے برعکس چلتا ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2020 ء میں کوویڈ 19 وبائی بیماری کا سال تھا جس کے بعد دنیا دوبارہ اسی طرف لوٹ گئی جہاں وہ 1910 میں تھی۔ اور عالمی بینک جو غریب ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتا ہے اور دنیا کے مسائل حل نہیں کر پا رہا ہے۔ پاکستان کیس ظاہر کرتا ہے کہ مالیاتی ادارے کس طرح ترقی پذیر ممالک پر دبا ئو ڈالتے ہیں۔ جب بات کم آمدنی والے ممالک کی ہو تو آئی ایم ایف تجویز کرتا ہے کہ وہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے نجکاری کی طرف جائیں اور معیشت کو سست کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کریں۔ لیکن جب ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو پالیسیاں اس کے بالکل برعکس ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے جب پالیسی ساز طلبہ کے قرضوں کو منسوخ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن جب بینکوں کو بیل آٹ کرنے کی بات آتی ہے تو حکام ان کی مدد کے لیے دوڑتے ہیں۔ پھر صورتحال ایسی ہے جو ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد ٹرکل ڈا ئون اثر جس کے بارے میں ہم بہت کچھ سنتے ہیں وہ حقیقی دنیا میں موجود نہیں ہے۔ غربت بہت شدید ہے اور دولت ان چند لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو اس کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہیں۔بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے صرف مزید ترقی پسند ٹیکس لگانے، جو امیروں پر ٹیکس لگانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، کچھ مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کا مقصد دنیا کو اس صورتحال سے بچانا ہو جس میں وہ خود کو پا رہی ہے، جیسے کہ سماجی بہبود پر اخراجات میں اضافہ اور موجود خلا کو ختم کرنا۔ ان اقدامات کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتیں صورتحال کو بدل سکتی ہیں اور دنیا کو پوری آبادی کے لیے ایک بہتر جگہ بنا سکتی ہیں۔md.daud78@gmail.com