ریاست کی طرف سے سیاسی مداخلت، تشدد اور طاقت کا اندھا دھند استعمال یہ ثابت کرتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کہیں نہ کہیں ناپید ہے۔ اس میں سیاست دانوں کی جنگجوانہ بیان بازی سے مزید اضافہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے حریفوں کے ساتھ بہیمانہ کے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں بلکہ ریاست اس کے اداروں کی توہین بھی کرتے ہیں۔ اس نے ایک تقسیم معاشرے کے ارتقا ء کو حقیقی طور پر متشدد کر دیا ہے ۔ اگر چہ اصولی طور پر کسی بھی سیاسی و جمہوری معاشرے میں قانون اور آئین کی حکمرانی اچھی حکمرانی کے اصول ہونے چاہئیں اور دھمکیوں اور برے سلوک کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ اگر تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے دکھائے جانے والے تشدد سے لے کر لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی پولیس کے ساتھ دو دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن)کی مریم نواز کی جانب سے استعمال کی گئی تلخ زبان اور تشدد کے لئے جے یو آئی کی جانب کی تیار کی گئی پرائیویٹ ملیشیا کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو بھی قانون کی حکمرانی کی پرواہ نہیں ہے اور وہ اپنی سیاسی چالبازیوں اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کی وجہ سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہیں۔یہ صورت حال ملک کے لئے بہت ناساز گار ہے اور اس نے قوم کو مایوس کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے سابق قبائلی اور آباد علاقوں میں عسکریت پسندی کا سہارا لینے کے رجحان اور سندھ اور بلوچستان میں فرقہ واریت کے احساس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم قومیت کا احساس مکمل طور پر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے جہالت اور ایڈہاک ازم پر انحصار کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر توڑ پھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، ججوں اور جرنیلوں کو سے دھمکانا بدقسمتی سے ہمارا قومی مکالمہ بن چکا ہے جو بنیادی طور پر ایک بیمار ذہنیت کی علامت ہے اور یہ سوچ ملک کو ایک دلدل کی جانب دھکیل رہی ہے۔ایک قوم اپنے عوامی نمائندوں سے تعلیم یافتہ ہوتی ہے اور ان کے اعمال قومی آئینے میں جھلکتے ہیں مگر بد قسمتی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیاست دان صرف ایک دوسرے کیساتھ اچھا برتا ئو کرنا سیکھیں تاکہ جب کوئی قومی معاملے سامنے آئے تو وہ اس کو افہام و تفہیم کیساتھ حل کرنے کا سلیقہ بھی جانتے ہوں ادھر ریاست کے دیگر ستونوں کو بھی خود کو آئینی طور پر طے شدہ کردار تک محدود رکھنا چاہیے اور اختلافات کے آخری دہانے پر نہیں جانا چاہیے۔ موجودہ تناظر میں ملک سے نہ صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے بلکہ ایسے عناصر جو نجی ملیشیاں کو چلاتے ہیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی جرات رکھتے ہیں خلاف بھی کارروائیاں ناگزیر ہیں کیونکہ بلوچستان میں پرائیویٹ جیلیں رکھنے والے عنا صر سے لے کر سندھ کے ناظم جوکھیو کے قتل تک جو لوگ قتل عام کرکے فرار ہو جاتے ہیں وہ معاشرے کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ اس لئے ملک خداد اد میں جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ مصائب سے دوچار عوام کو دلاسہ دینے کی ہے جو ریاست کی سرپرستی کے خواہش مند ہیں اور ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب منظور نظر افراد ان تمام لوگوں کو جنہوں نے ریاست کی دولت کو ہڑپ کیا ہے کو گرایا جائے گا۔ اس لئے یہ تمام سٹیک ہولڈر زکی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی رٹ بحال کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔md.daud78@gmail.com