وفاقی حکومت نے مستقبل میں توشہ خانہ سے بیرون ممالک کے سرابرہان کی جانب سے فراہم کئے جانے والے تحائف سیاست دانوں اور حکمرانوں کی جانب سے اونے پونے حاصل کرنے کے سلسلے کے آگے پل باندھنے کیلئے کچھ تجویز سامنے رکھی ہے تاکہ یہ سلسلہ بند کیا جائے یا پھر کم کیا جاسکے اور اس کے لئے ہر چیز کی قیمت کا کم از کم تعین پچاس فیصد ہونا چاہیے ۔ یاد رہے کہ موجودہ وفاقی حکومت نے غیر ملکی تحائف کو ہینڈل کرنے کے قوانین میں کچھ خوش آئند تبدیلیاں کی ہیں جو عمران خان کے اپنے ہی سخت توشخانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر نااہل ہونے سے پہلے ہی کافی متنازعہ تھیں۔ عمران نے بطور وزیر اعظم غیر ملکی معززین سے ملنے والے گھریلو تحائف لینے کے لیے ادا کی جانے والی رقم کو اس چیز کی قیمت کے 50 فیصد تک بڑھا دیا تھا جو پچھلے ادوار میں 20 فیصد سے زیادہ تھا اس وقت بہت استثنیٰ دیا گیا تھا خاص طور پر نقدی اور کاریں، تقریبا ہر چیز جو موصول ہوئی تھی وہ کوئی بھی افسر یا حکمران معمولی قیمت دے کر گھر لے جایا جا سکتا تھا اور ایسا اکثر ہوتا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ حکمران جماعتیں پائن ایپل تک گھر وں کو لے جاتے ر ہے ہیں جو گری ہو ئی اخلاقیات کی علامت ہے ۔ علاوہ ازیں غیر ملکی تحائف کے احترام میں اسے توشہ خانہ میں جمع کر نے کی سیاست کرنے کے باوجود اکثر منافع کے لیے فروخت کیا جاتا تھا یا پھر خود حا صل کر لیا جاتا تھا جو بالکل قانونی ہونے کے باوجود اخلاقی پستی کی علامت تھی ۔ اخلاقی طور پرچاہیے تو یہ ہے کہ ان تحائف کو قومی عجائب گھرمیں داخل کیا جائے یا پھر ان پر بولی لگا کر پیسے خزانے میں داخل کئے جائیں ۔موجود ہ قواعد نے ڈسکانٹ کے اصول کے لیے نسبتاً کم حد مقرر کی ہے جو-$300 ہے اس سے زیادہ کی قیمت والی کوئی بھی چیز نیلام کی جانی چاہیے۔ مگر ہمارے پاکستانی حکام اپنے اہل خانہ کو دیے گئے ایسے تحائف پر فخر کر تے ہیں جو باعث شرم ہے ۔ اگر ایسا کوئی ضابطہ بنا لیا جاتا ہے تو پھر ہمارے منتخب لیڈروں کے لیے رعایتی رولیکس گھڑیاں اور زیورات کا خاتمہ ہوگا اور ان غیر ضروری تنازعات سے بچنے میں مدد ملے گی جو ہر چند سال بعد سامنے آتے ہیں۔ $300 کی حد بھی زیادہ تر تحائف اور دیگر علامتی تحائف کا احاطہ کرنے کے لیے کافی زیادہ ہے کیونکہ ایسی کم قیمت چیزیں بھی رشوت کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ، دولت مند سیاست دان جو اعلیٰ قیمت کے تحائف میں حقیقی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں وہ اب بھی نیلامی میں ان کے لیے بولی لگا سکتے ہیں۔ جہاں حالیہ تاریخ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سی قیمتی اشیا اب بھی مارکیٹ ویلیو سے قدرے کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں نہ کہ ان قیمتوں پر جو بازار میں مقرر ہوتی ہیں۔ نئے قوانین نے موصول ہونے والے تحائف کے اعلان اور جمع کرانے کے لیے ایک سخت ٹائم لائن بھی مقرر کی ہے جو 30دن ہے جس میں حکومت اشیا کی تشہیر یا نیلامی کرے گی ۔ حکومت کو ایک کریڈٹ یہ ہے کہ، کم از کم پہلی نظر میں، نئے قواعد میں کچھ بھی نہیں ہے جسے استحصالی خامی سمجھا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس سے بھی بہتر قوانین سامنے آئیں گے اور دنیا بھر ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بننے والے توشہ خانہ کا بہترین استعمال کیاجائے گا اور اس سے حاصل کی جانے والی رقم سرکاری خزانے میں داخل کی جائے مگر یہاں پر ایک سوا ل پھر بچتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یہاں تو ہر دور میں دودھ کی چوکیداری بلی کو سونپی جاتی ہے ۔ موجودہ حکومت کے اقدامات بھی کچھ اس ہی قسم کے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قیمتوں کو کم یا زیادہ کرنے سے کام نہیں چلے بلکہ اس قانون کو یکسر تبدیل کر کے حکمرانوں کے تحفے خریدنے اور بیچنے پر پابندی لگائی جائے بلکہ وہ اوپن بولی میں بھی شرکت نہ کر سکیں تو بہترہوگا ، اسطرح وہ مال بنانے کی فکر سے آزاد ہوکر قوم کی خدمت کر سکیںگے۔md.daud78@gmail.com