محمد دائود
یہ قحط الرجال ہی ہے جس کی وجہ سے ملک خداداد پستی کا شکار ہو گیا ہے اور کوئی بھی ادارہ صحیح طور پر کام نہیں کر رہا ہے تاہم آج ہم ملک میں رہنمائوں اور خصوصی طورپر سیاسی رہنمائوں کے فقدان پر بات کریں گے ۔ اگر ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو سابق وزیر اعظم اور موجودہ اشرافیہ و انتظامیہ کے درمیان ہو نے والی کشمکش و سیاسی ہلچل سے ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ حکومت سے نکلنے کے بعد بھی ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ اس کے لئے جانیں دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم کی ذاتی زندگی اور ٹریک ریکارڈ پر لاکھ باتیں کی جاسکتی ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے نوجوانوں کو جو عمران خان پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتے ہیں انہیں ملک میں کوئی اور سیاسی لیڈر کیوں نظر نہیں آتا؟ یا پھر با الفاظ دیگر ان کا متبادل کیوں موجود نہیں ہے؟ ۔ یہ سوال سیاسی اتحاد سمیت معاشرے کے ہر مکتب فکر سے بنتے ہیں ۔ آخر اس قحط الرجال کی وجہ کیا ہے کہ نوجوان محض نئی بات کرنے والے اور ہر روز بیانات بدلنے والے لیڈر پر اعتبار کر رہے ہیں جنہوں نے مخالفین کے مطابق ہر بار یو ٹرن لیا ہے مگر اسکے باوجود نوجوانوںکو مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوںمیں کیوں متبادل نظر نہیں آتا ہے۔ یہ ایک ایسا چبتا ہو ا سوال جس کا جواب تمام اتحادی رہنمائوں کو دینا ہے کیونکہ اپنی قانونی مشکلات اور ناقدین و حریفوں کے الزامات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ گیلپ سروے کے مطابق وہ اوسط کے لحاظ سے کسی بھی پارٹی سربراہ سے میلوں آگے ہیں۔ سروے کے مطابق ایک عام شہری کا تصور ہے کہ درحقیقت عمران واحد شخص ہے جس کی خالص مثبت ریٹنگ ہے یعنی زیادہ لوگوں نے ان کے مقابلے میں دوسروںکے لئے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے حالانکہ عمران کے لیے ریٹنگ کا بڑا حصہ ہماری سیاست کی منقسم نوعیت کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں ہر کوئی یا تو اچھا ہے یا برا تاہم حقیقت میں ووٹروں کی ذاتی پسند کے علاوہ کوئی قابل قبول رائے نہیں ہو سکتی ہے ۔ علاوہ ازیں گیلپ پاکستان کی طرف سے شائع کردہ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شہریوں کو اپنی جماعتوں پر کوئی اعتبار نہیں رہا کیونکہ اس سروے کے دوران 53 فیصد جواب دہندگان نے ایماندار سیاستدانوں اور ٹیکنو کریٹس پر مشتمل نئی پارٹی کی حمایت کرنے کے رجحان کا اظہار کیا ہے۔ سروے میں ایک اور دلچسپ اعدادوشمار یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نصف سے زیادہ کارکن کہتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی متبادل دستیاب ہو گیا تو وہ پارٹی چھوڑ دیں گے۔ اس کے مطلب یہی ہو ا کہ انہیں کوئی متبادل نظر نہیں آتا ہے ۔اس لئے وہ عمران خان کیساتھ کھڑے ہیں ان پر اس اعتماد میں اس سیاسی پارٹی کے کارکنوں کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے اگر عمران مقبول ہیں اس کی ایک وجہ دوسرے آپشنز کی کمی کی وجہ بھی ہے جسے عمران کے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوسط شہری معیشت کی حالت کے لیے پی ڈی ایم کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور ماہرین اس سے بھی زیادہ اہم رائے رکھ سکتے ہیں کہ اقتدار میں آنے والوں کو ایک ٹوٹی پھوٹی معیشت وراثت میں ملی ہے اور اسے ٹھیک کرنے میں ناکامی کا ہی ان پر الزام لگایا جانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنا سب سے اہم کام کرنے میں ناکام رہا اور وہ وعدے ایفا نہیں کر سکا جس کا خواب شہریوں کو دکھائے گا ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک رہنما کی مقبولیت ہمیشہ انتخابی فتوحات پر منحصر ہو تی ہے۔ اس مقبولیت کے بدولت اگرچہ عمران ضمنی انتخابات لڑتے اور جیتتے رہتے ہیں مگر عام انتخابات میں اگر وہ واقعی دوبارہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو انہیں خود 250 نشستوں پر الیکشن لڑنے کے بجائے پی ٹی آئی کے لئے دیگر قابل انتخاب امیدوار تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ عنصرکافی وزنی ہے کہ ایک چیز جو عمران خان کو نقصان پہنچاسکتی ہے وہ جیتے والے رہنمائوں کی کمی ہے ورنہ تو وہ خود بہت مقبول ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ آسانی کیساتھ جیت بھی جائیں گے۔ مگر ملک میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہیں زیادہ منجھے ہو کھلاڑی پیدا کرنا ہوں گے ۔ ادھر اتحادی جماعتوں کو بھی عمران خان کا توڑ کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ ان جماعتوں پر لگنے والا قحط الرجال کا دھبہ دھویا جاسکے۔ اگر ان جماعتوں کی جانب سے عمران خان کی مقبولیت کم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی گئی تو پھر آنے والے عام انتخابات میں بھی انہیں ون مین شو کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ یہ جماعتیں عمران خان کا کیا توڑ سامنے لاتی ہیں جو عنقریب خو د تتر بتر ہو نے والی ہیں۔