حج کے ناقابل برداشت اخراجات

حکومت نے پاکستان میں مقیم عازمین حج کا کوٹہ نصف کر دیا ہے جس کیوجہ سے حج کی خواہش رکھنے والے عازمین کی پریشانیوںمیں اضافہ ہوا ہے ادھرمعاشی بحران اب عازمین حج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے کیونکہ روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے اب حج پر اخراجات بھی ناقابل برداشت ہو گئے ہیں اور امسال بہت سے عازمین حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ کمی بنیادی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے کی گئی ہے جن کا پاکستان کے تقریباً 179,000 عازمین حج کے مجموعی کوٹے میں حصہ بڑھا کر 50 فیصد کر دی گیا تھا۔ اس کے پیچھے منطق نہایت سیدھی ہے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی پروازوں، رہائش اور حج سے منسلک دیگر اخراجات کی ادائیگی کے لیے پاکستان کے غیر ملکی کرنسی کے معمولی ذخائر میں نہیں جائیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کرنے سے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا۔ حکومتی ماہرین کا خیال ہے کہ درحقیقت یہ حکومت کے لیے غیر ملکی کرنسی کا خالص فائدہ ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈالر میں اخراجات ادا کریں گے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مقامی رشتہ دار بھی اوورسیز کوٹہ کے تحت اہل ہیں جب تک کہ ادائیگیاں بیرون ملک سے اور ڈالرز میں کی جائیں۔دریں اثنا، مہنگائی اور حالیہ رپورٹس کی وجہ سے کہ سعودی حکومت حج سے متعلق ٹیکسوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس دوران ہر کسی کے لیے حج کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم خالصتا ًاقتصادی نقطہ نظر سے سب سے بڑی تشویش وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وزارت مذہبی امور کو یہ یقین دہانی ہے کہ حکومت سرکاری حج پروگرام کے لیے تمام ضروری فنڈز دستیاب کرائے گی۔ 2023 ء میں حج سکیم پر کل اخراجات تقریباً 2 بلین ڈالر ہونے کی توقع ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 3 بلین ڈالر سے 4 بلین ڈالر کے درمیان ہیں جو کہ برآمدات کی ادائیگیوں کے بمشکل ایک مہینہ کے اخراجات ہیں ۔ جب کہ ہماری معاشی حالت اتنی دگر گوں ہوں ہو چکے ہیںکہ ہمارے ایلچی ہاتھ میں کٹورا لیے دنیا بھر میں بھیک مانگنے کے لئے بھاگ دوڑ رہے ہیں تو کیا حکومت کو حج پر اربوں کی سبسڈی دینا چاہیے؟ اگرچہ کل رقم قومی خزانے سے نہیں آئے گی ۔حکومت کا تخمینہ ہے کہ اسے حاجیوں کے مقامی کوٹے کی مدد کے لیے صرف’ 284ملین ڈالر کی ضرورت ہوگی ۔جس سے نجی افراد کو حج پر اتنی بڑی تعداد خرچ کرنے کی اجازت دی جائے گی جب ہم کھانے کی ادائیگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔حج اخرجات سالہاسال سے بڑھ رہیں جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو سبسڈی و دیگر عارضی اقدامات کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے بلکہ دیگر معاملات کی طرح حج اخرات میں کمی کے لئے بھی ملک کی معاشی حالت بہتر بنانا ہو گی ۔ یاد رہے کہ ملک سے حج یا عمرہ کے لئے جانے والے عازمین کے لئے سب سے بڑ ا مسئلہ روپے کی قدر میں کمی ہے ۔ اکثر عمرہ زائرین جو حال ہی میں حرمین سے واپس آئے کی یہی رائے کہ سعودی عربیہ میں مہنگائی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں پر دیگر ممالک سے آنے والے عازمین کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ ان ممالک کی کرنسی پاکستانی کرنسی کے مقابلے بہتر ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے عازمین کو خریداری اور خوارک میں کوئی خا ص مشکلات در پیش نہیں ہیں جبکہ اسکے برعکس پاکستانی عازمین ایک ایک روپیہ بچا کر رکھتے ہیں ۔ اس لئے حکومت سبسڈی دینے کے بارے میں سوچنے کی بجائے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرے تو آنے والے سال حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed