دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیا پلان ناگزیر

القاعدہ و داعش اور بہت سے دیگر کے عناصر کی کارروائیوںکیوجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور ان کے لئے گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مذکورہ رپورٹس او ر حالات کا جائزہ لیکر ایک نئی قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد لیا جائے اور ان کی ان پٹ کے مطابق اس پر عمل درآمد کیا جائے ۔ ان نتائج کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھرتے ہوئے زمینی حقائق بھی امن و امان کی ایک مایوس کن تصویر کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ باغیوں نے افغانستان سے واپسی کی تھی اور وہ اپنے مذموم ایجنڈے کو فعال طور پر نافذ کر رہے ہیںاور ان میںکوئی لچک نظر نہیں آرہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ مزید شد و مد کیساتھ کے اپنے مذموم مقا صد کے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لئے اس کے سدباب کے لئے عامل اداروں کو بھی سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی کمر توڑ دی جائے ۔ ادھر رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کا عزم ہے کہ وہ سابقہ فاٹا پاٹا میں شریعت کا اپنا ورژن قائم کرے۔ اس نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکومت پاکستان نے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے اتنی سنجیدگی سے کام نہیں کیا جس کی نشاندہی موجود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی بارہا کی ہے کہ ان عکسریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ قارئین ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ کیسے 2014 ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر عسکریت پسندوں کے ایک انتہائی مہلک حملے کے پس منظر میں وضع کیا گیا تھا۔ حکومت دہشت گردی کی مدد کرنے والوں اور مالی معاونت کرنے والوں کو پکڑنے کی اپنی کوششوں میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے جیسا کہ برسوں سے فیٹف کی گرے لسٹ حکومت کے دبا ئو سے ظاہر ہے جب میں ملک میں کوئی افرا تفری ہوتی ہے گرے لسٹ کا شو شا چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اس لئے سرکار کو بین الاقوامی برادری کی ہمدریاں بھی درکار ہو ں گی تاکہ حکومت کی جانب سے دہشت کو نیست و نابود کرنے کے لئے جو بھی اقدامات کئے جائیں اس کو بین الاقوامی برادری اور خصو صی طور پر امریکہ و سعودی عرب جیسے اتحادی و برادر ممالک کی حمایت حاصل ہو ۔ اس میں کوئی دورئے نہیں ملک میں جاری سیاسی و معاشی بحران کی وجہ غیر ریاستی عناصر کو حوصلہ ملا ہے اور وہ معاشی حالات سے تنگ افراد کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ ایک پیشگی نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد جانوں کے نذرانے دینے والے عوام اور مسلح افواج کی شاندار قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم وقت کے ساتھ کمزور ہوتا چلا گیا۔ افغانستان میں آنے والے طالبان اور دہشت گردی کی نئی لہر نے ہمارے راستے میں آنے والی کامیابیوں کو لفظی طور پر کمزور کر دیا تھا۔آئیے وہیں سے چلنا شروع کریں جہاں سے ہم نے چھوڑا تھا۔ علاوہ ازیں2014 ء میں قومی سلامتی پالیسی (2022-26) کی روح کے مطابق ایک نئی دہشت گردی کی پالیسی کو دوبارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں جائیں تاکہ ایک مستحکم معاشی نظام کو بحال کیا جاسکے۔ رپورٹ میں یہی بتایا گیا ہے کہ معاشی ترغیبات اور ترقی کی عدم موجودگی ناراض عناصر کو آگے بڑھنے کے قابل بناتی ہے۔ یعنی جہاں پر ہمیں قومی سلامتی کے لئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر ہمیں اپنی معاشی حالت بہتربنانا ہو گی جس نے ہمارے معاشرے کو بگاڑ کر کر رکھ دیا ہے ۔ یہ معاشی ناہموار ی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے عسکریت پسند ، قتل مقاتلے اور دیگر جرائم میں اضافہ ہو ا ہے جس کی روک تھام کا واحد زریعہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام ہے جس کے لئے پوری قوم کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی ۔ md.daud78@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Fill out this field
Fill out this field
براہ مہربانی درست ای میل ایڈریس درج کریں۔
You need to agree with the terms to proceed