اسلام کے نام پر بننے والے ملک خدا داد میںبچیوں کے ساتھ زیاتیوں کا سلسلہ جاری ہے جس مقصد کے لئے ملک بنایا گیا تھا قوم اس سے کوسوں دور نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جہاں دیگر برائیاں عام ہیں وہاں پر سود جیسی لعنت سے متاثر ہ معاشرے میں بچیوں کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں جس پر آنسو بہانے والا اور افسوس کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے کیونکہ قوم کا کوئی وجود نہیں ہے ، ہر جگہ چلتی پھرتی لاشیں نظر آرہی ہیں جو بگڑتے ہوئے حالات پر اپنا در عمل دینے سے قاصر ہیں ۔اس لئے اس ظلم و دہشت گردی میں دن بدن اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عصمت دری کے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے اور ہر ہفتے نئے گھنانے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ جس سے معاشرے میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ اس بار کراچی کے علاقے بن قاسم کی ایک چھ سالہ بچی جو اس ہفتے لاپتہ ہو گئی تھی سفاکیت کا نشانہ بنی ہے اور بیمار ذہنیت والے افراد نے لاش کو نیشنل ہائی وے کے ایک نالے میں پھینک دیا۔ اگرچہ بچی کا جسم گلنا شروع ہو چکا تھا مگر ڈاکٹر اس کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہے۔یہ واقعی خوفناک اور تشویشناک ہے کہ اس طرح کے عفریت آہستہ آہستہ اپنے اگلے ہدف کی توقع کرتے ہوئے ہمارے درمیان چھپے رہتے ہیں جن کا کوئی چہرہ نہیں ہو تا جن کی پیش بندی کی جاسکے۔ یادرہے کہ یہ جنونیت پر مبنی جرائم نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو نے والے جرائم ہیںجن پر خاموش رہنا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتاہے ۔ ان جرائم کا مقصد کمزور بچوں کو نشانہ بنانا ہے تاکہ معاشرے کو مزید نفسیاتی مسائل میں جھونکا جاسکے ۔ اس لئے ان وحشیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر عوام کے سامنے ایک مثال بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دوسرے جرائم پیشہ عنا صر کو روکنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ پولیس کو ان مجرموں کو پکڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ہائی وے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھنا چاہیے تاکہ استعمال شدہ گاڑی کا پتہ لگایا جا سکے اور آس پاس کے لوگوں کا انٹرویو کیا جائے اگر انہوں نے کوئی مشتبہ چیز دیکھی ہو تو اس کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جاسکیں۔ رپورٹ ہونے والے کیسوں کی کثرت کو دیکھنے کے باوجود ہمارا معاشرہ جنسیت کو ایک ممنوع موضوع کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ان عوامل میں سے ایک جو کسی شخص کو عصمت دری کا ارتکاب کرنے کا باعث بنتی ہے وہ ہے جبری جنسیت۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جنسی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا جائے اور سکولوں کو حیاتیات کی نصابی کتابوں میں ایسے صفحات چسپاں کرنے سے روکنا چاہیے جو انسانی اناٹومی کو بیان کرتے ہیں جبکہ نوعمر بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ و اجنبیوں کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے کے بارے میں سکھایا جانا چاہیے۔علاوہ ازیں بچوں سے سوال کرنے اوردریافت کر کے پریشان کرنے کی بجائے انہیں باخبر جوابات فراہم کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ اس لئے والدین براہ کرم چوکس رہیں۔ جہاں تک ریپ کرنے والوں کا تعلق ہے انصاف کے نظام کو ان کو سخت ترین سزا دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ ان حالات میں جب حالات خراب ہو رہے ہیں ملزموں کو کسی قسم کا استثنٰی دینے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور سزا کی شرح میں اضافہ کیا جانا چاہیے ۔اس معاملے میں سب زیادہ کر دار چیف جسٹس آف پاکستان کو ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کسی سیاسی معاملے کے لئے عدالت رات بارہ بجے کھل سکتی ہے تو پھر کسی غیریب کی بچی کی عزت لٹنے کے بعد جب وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبو ر ہوتا ہے! اس وقت یہ اعلیٰ عدالتیں کیا کر رہی ہوتی ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اعلیٰ عدالیہ کو کو دینا ہو گا جب تک اعلیٰ عدلیہ ایسے سفاک مجرموں کو تسلسل کیساتھ سخت عبرتناک سزائیں نہیں دے گی اس وقت تک عوام کا عدلیہ پر اعتماد نہیں بڑھے گا۔ md.daud78@gmail.com