ادویات کا بحران!
روپے کی قدر میںکمی کے باعث کچھ دن پہلے مقامی دوا ساز کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ انہیں پیداواری لاگت کے بحران کا سامنا ہے اور یہ ان حالات میں ادویات کی تیاری کو جاری رکھنا مالی طور پر ناگزیر ہو گیا ہے۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو کافی عرصے سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ احتجاج کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کو پورا کرنے کے لیے ادویات کی خوردہ قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ ملک کی معاشی صورت حال مخدوش ہے ااور معیشت مستقل طور پر خود مختار ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے۔ ادھر ایل سیزکھولنے میں تاخیر نے دوا سازی کی صنعت کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ سے ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزا ء درآمد کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جبکہ ڈالر روپے کے مقابلے میں مہنگا ہونے کے چکر نے اس مسئلے یعنی پیداواری لاگت کو بڑھا دیا ہے۔ اس لئے صنعتیں مینوفیکچرنگ سامان کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے فروخت کی قیمت میں اضافہ کر سکتی ہیں لیکن اس معاملے میں ایک بڑا مسئلہ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے پر حکومت کا اصرار ہے۔ادویات کی قیمتوں کا تعین یہاں تھوڑا مشکل ہے کیونکہ حکومت قیمتوں پر گفت و شنید کررہی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ادویات پر ایک حد لگاتی ہے تا کہ وہ سستی اور قابل رسائی ر ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام نہیں ہے کیونکہ کم از کم ایک ایسے ملک میں جہاں بے پناہ غربت ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ ہے وہاں ادویات مزید کیسی مہنگی کی جاسکتی ہیں۔ اگر حکومت نے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو دوا ساز کمپنیاں اپنا کام روک دیں گی جس سے ضروری ادویات کی عدم دستیابی ہو گی اور یہ لوگوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کرے گا خاص طور پر وہ لوگ جو جان لیوا ء بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو درمیانی بنیاد تلاش کرنی چاہیے اور حکام کو مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کیے بغیر لوگوں کی مدد کرنی چاہیے اور کوئی بھی خسارے میں کاروبار نہیں کر سکتا۔ پچھلے سال مشہور برانڈ پیناڈول کی کمی نے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کو ایک ایسے وقت میں مفلوج کر دیا تھا۔ جب نہ صرف ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے بلکہ لاکھوں سیلاب سے متاثرہ افراد بھی عارضی امدادی کیمپوں میں طبی امداد کے منتظر تھے۔ جب کمپنیوں کے پاس بریک ایون پوائنٹ تک پہنچنے کے لیے کافی وسائل نہیں ہوتے ہیں تو وہ اپنے کام کو روکنا زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں اور اگر مقامی کمپنیاں ضروری ادویات کی تیاری بند کر دیں تو اس سے ملک میں صحت کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا۔ادھر پہلے ہی کینسر اور دل کی بیماریوں کے علاج کے لیے درکار ادویات کی شدید قلت ہے۔ انسولین اور ذیابیطس کی دیگر ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کی بے عملی ایک پروان چڑھتی ہوئی بلیک مارکیٹ کی طرف لے جائے گی جہاں منافع خور لوگوں کے مصائب اور اپنے پیاروں کے لیے جان بچانے والی ادویات خریدنے کی عجلت سے فائدہ اٹھائیں گے۔یاد رہے کہ2020-21 میںکووڈ وبائی بیماری کے ابتدائی سالوں کے دوران لوگوں نے غیر منظم اور غیر مجاز ڈیلروں اور فروخت کنندگان سے زندگی بچانے والے انجیکشن خریدنے کے لیے تقریباً ایک ملین روپے ادا کیے۔ کیا حکومت 2020 کے دوبارہ آنے کا انتظار کر رہی ہے؟
جبکہ ملک پہلے ہی 2021-22 ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں سات درجے گر گیا۔ ملک میں متوقع عمر 65 ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے اور موجودہ صورتحال بتاتی ہے کہ حکام کوئی بہتری لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لئے اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ادویات مزید مہنگی کے ساتھ باپید ہو نا شروع ہو جائیں گے۔ md.daud78@gmail.com